“انتظار کی ایک دہائی” سیف اللہ رودینی کی گمشدگی کی دردناک کہانی”
تحریر: لطیف بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
دلکش مناظر، مہمان نواز لوگوں کے لئے مشہور بلوچستان کے علاقہ وادی سوراب میں ایک خاندان گزشتہ دس سالوں سے نہ ختم ہونے والے ڈراؤنے خواب کی زندگی گزار رہا ہے۔ یہ ایک پولیس اہلکار سیف اللہ رودینی کے بدقسمت خاندان ہے، اس خاندان کا چشم و چراغ سیف اللہ رودینی ولد داد خدا 22 نومبر 2013 کو ڈیوٹی کے لئے خضدار جاتے ہوئے جبری لاپتہ ہو گئے تھے۔
سیف اللہ کی جبری گمشدگی کے بعد خاندان کو ان کی جبری اغواء کی ایف آئی آر درج کرانے کے لئے بے انتہا تکلیف اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا کیونکہ مقامی پولیس اور لیویز نے ان کی جبری گمشدگی کی ایف آئی آر درج کرنے سے انکاری تھے، پھر لواحقین نے لاپتہ افراد کے کمیشن سے درخواست کی کہ سیف اللہ کی گمشدگی کا ایف آئی آر درج کیا جائے۔ پھر 8 سال بعد جاکر کمیشن کی ہدایات پر 11 مئی 2021 کو مقامی لیویز نے ایف آئی آر تو درج کی لیکن تاحال سیف اللہ رودینی کا کوئی پتہ نہیں چل سکا ہے۔
سیف اللہ کی کہانی ایک ایسی دل دہلانے والی کہانی ہے جو جبری گمشدگیوں کے شکار پیچھے رہ جانے والوں کو لاحق درد، تکالیف، انتظار اور بے بسی کو ظاہر کرتی ہے۔
سیف اللہ رودینی، والدین کا فرمانبردار بیٹا، دیکھ بھال کرنے والا مہربان بھائی، اور ایک پُرعزم نوجوان، جو 22 نومبر 2013 کو اپنی فرض کے احساس کے ساتھ گھر سے خضدار کے لئے رخت سفر باندھ لیا تھا۔ اسے یا اس کے خاندان کو یہ معلوم نہیں تھا کہ یہ سفر ایک دہائی پر محیط اذیت، بے یقینی اور دردِ دل سے بھری آزمائش کا آغاز کرے گا۔
جبری گمشدگیوں نے اس بلوچستان کے لوگوں کو برسوں سے پریشانی اور الم سے دو چار کر رکھا ہے، جس سے لاتعداد خاندان پریشانی کے عالم میں اپنے لاپتہ پیاروں کے منتظر ہیں۔ پیارے بغیر کسی جرم کے غائب ہو جاتے ہیں اور پھر برسوں تک ان کا سراغ نہیں ملتا، اور خاندان جوابات کی تلاش اور انصاف اور پیاروں کی واپسی کی تڑپ میں زندگی گزارتے ہیں۔ سیف اللہ رودینی کا خاندان بھی اس نہ ختم ہونے والی درد و الم سے دو چار ہے۔ ایک دہائی سے وہ اس کی زندگی اور قسمت کا علم نہ ہونے کے دردناک درد کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں، ان کی زندگیوں کو اس کی ناقابل فہم گمشدگی نے ازیت کا شکار بنا دیا ہے۔
سیف اللہ رودینی چھ بھائیوں اور تین بہنوں میں تیسرے نمبر پر تھے اور وہ گھر کا واحد کفیل تھا، ضروریات زندگی کے ساتھ وہ اپنے چھوٹے بھائی اور بہنوں کو تعلیم بھی دلوا رہے تھے، ان کی جبری گمشدگی کے بعد خاندان انتہائی مصائب و مشکلات سے دو چار ہوئی اور بہن و بھائی مالی مشکلات کی وجہ مزید تعلیم حاصل کرنے کا سلسلہ بھی جارہی نہیں رکھ سکیں، بلکہ ان کی زندگی یکسر بدل گئی اب ان کی بہن فرزانہ رودینی سمیت دیگر چھوٹے بہن و بھائی اسکول اور کالجز جانے کے بجائے اپنے لاپتہ بھائی کو سراپا تلاش ہیں، ان کی تصاویر لئے کبھی پریس کلبز کے سامنے نظر آتے ہیں تو کبھی کمیشن اور کبھی عدالتوں کا چکر کاٹتے ہیں لیکن اِن دس برسوں میں انہیں ہر جگہ سے سوائے مایوسی کی اور کچھ حاصل نہیں ہوئی ہے۔
سیف اللہ کی جبری گمشدگی اور غیر موجودگی کا اثر ان کے خاندان پر بہت زیادہ پڑا، اُس کے والدین، بہن و بھائی جو کبھی اُمید اور خوشی سے بھری زندگی گزار رہے تھے، اُس خوشی کو اُن سے چھین لیا گیا۔ ماں و باپ اپنے بیٹے کی واپسی کی خواب آنکھوں میں سجائے اس فانی دنیا سے انتظار کے ساتھ رخصت ہوگئے۔ سیف اللہ کے والد بیٹے کی جدائی کا غم اور انتظار کی دردناک ازیت برداشت نہ کرتے ہوئے اپنے بیٹے کی گمشدگی کے دو سال بعد اور والدہ بیٹے کی جبری گمشدگی کے ساتویں سال داغِ مفارقت دے گئے۔
بہنیں اور بھائی جو ایک ساتھ پلے بڑھے، ہنسی خوشی اور خواب بانٹتے تھے، اب اپنے بھائی کی عدم موجودگی کی مشترکہ درد کے بوجھ میں جکڑے ہوئے ہیں۔ سیف اللہ کی گمشدگی سے جو خلا پیدا ہوا ہے وہ ایک ایسا زخم ہے جو کبھی مندمل نہیں ہوتا، ایسا درد جو کبھی مدھم نہیں ہوتا۔
گزرتے وقت نے اذیت کو کم نہیں کیا بلکہ اسے مزید گہرا کر دیا ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ سیف اللہ کی واپسی کے لئے تڑپ بڑھتی جارہی ہے، ان کی امید ہوا میں شمع کی طرح ٹمٹما رہی ہے۔ وہ اپنی یادوں، اس کے لیے اپنی محبت، اور اس یقین پر قائم ہیں کہ انصاف ایک دن ضرور غالب آئے گا۔
سیف اللہ کی جبری گمشدگی کا واقعہ کوئی انوکھا اور اکلوتا واقعہ نہیں ہے، کیونکہ بلوچستان بھر میں لاتعداد خاندان ایک جیسی کہانی بیان کرتے ہیں۔ جبری گمشدگیوں اور انسانی حقوق کے بحران نے بلوچ قوم پر ایک سیاہ سایہ ڈال دیا ہے، جس نے انسانی حقوق کے کارکنوں اور عالمی برادری سے فوری توجہ کا تقاضا کرتا ہے۔
سیف اللہ رودینی کے خاندان کا درد ناقابل تصور ہے اور اُن درد و تکلیف کو دیکھ کر انسانی روح تڑپ جاتی ہے۔
سیف اللہ رودینی کے خاندان اُن کی واپسی کا انتظار کر رہا ہے، ان کی کہانی محبت، امید اور خاندان کے اٹوٹ بندھن کی پائیدار طاقت کی طور پر کھڑی ہے۔ اپنے دکھ کے درمیان وہ اس یقین پر قائم ہیں کہ ایک دن خوشیاں ان کے گھر لوٹیں گی، اور سیف اللہ اپنے گھر واپس آجائے گا، اس وقت تک وہ ایک روشن کل کی امید پر زندگی گزار رہے ہیں۔