غزہ کے ایک ہسپتال پر بمباری پر اردن کی سڑکوں پر جمعرات کو مشتعل مظاہروں کا سلسلہ جاری رہا ۔ اردن مشرق وسطیٰ میں امریکہ کا ایک اہم اتحادی ہے جہاں فلسطینی نژاد لوگوں کی بھی ایک بڑی تعداد مقیم ہے اور جہاں امریکی صدر جو بائیڈن کے رواں ہفتے کے دورے کے دوران عرب ممالک کے ساتھ ایک اجلاس بھی منسوخ کر دیا گیا تھا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہےکہ امریکی صدر اور عرب راہنماؤں کے درمیان اجلاس غزہ کےلیے انسانی ہمدردی کی امداد کی ترسیل کی ایک راہداری کو مزید مستحکم کرنے میں مدد دے سکتا تھا۔
امریکہ کی اپلاچن یونیورسٹی میں مشرق وسطیٰ کے امور کے ایک ماہر کرٹس راین نے وی او اے کو بتایا کہ غزہ کے اھلی عرب ہسپتال میں دھماکے کے بعد، جس میں سینکڑوں لوگ مارے گئے، اردن میں تین دن کے عوامی سوگ کے اعلان اور بڑے پیمانے پر جنم لینے والے مظاہروں کےباعث امریکی صدر جو بائیڈن کے ساتھ ایک سربراہی اجلاس کا انعقاد مشکل ہو گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ“ بدقسمتی سے یہ سر براہی اجلاس نہیں ہوا کیوں کہ اس وقت ایک ہنگامی صورتحال ہے۔ اس اجلاس میں مصر، اردن، امریکہ اور فلسطینی اتھارٹی نہ صرف انسانی ہمدردی کی امداد کی ترسیل کی کسی گزر گاہ کی تشکیل کے لیے کے اکٹھے ہوتے بلکہ بائیڈن کو دوسرے تین فریقوں اور خاص طور پر اردن کی جانب سے جو پیغا م ملتا وہ ہوتا، “ جنگ بندی” ۔
اردن کی بلوہ پولیس نے بدھ کو دار الحکومت عمان میں اسرائیلی سفارت خانے کے قریب، ہزاروں مظاہرین کو پیچھے دھکیلا جہاں پولیس کے متعدد اہلکار قریبی املاک کو آگ لگانے والے لوگوں کے ساتھ جھڑپوں میں زخمی ہوئے۔ مظاہرین نے نعرے لگائے، ”عرب سر زمین پر کوئی صیہونی سفارت خانہ نہیں ۔” بر ہم اردنی شہریوں کے بڑے پیمانے کے مظاہرے ملک بھر میں جاری رہے ۔
راین کہتے ہیں کہ غزہ پر اسرائیل کا کوئی متوقع زمینی حملہ ان مظاہروں میں مزید شدت پیدا کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ“ ہر ایک کو فلسطین کے مسئلے کی پرواہ ہے۔ یہ کسی دوسرے مسئلے کے برعکس اردن کی سیاست کو متحرک کرنے والا ایک دیرینہ مسئلہ ہے ۔ فلسطینی شہریوں کے ساتھ کیا ہورہا ہے ، ہر ایک اس پر کام کر رہا ہے ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ہم اتنے بڑے پیمانے کے مظاہرے دیکھ رہے ہیں ۔ اگر کوئی (اسرائیلی) زمینی حملہ واقعی ہوا تو حالات مزید خراب ہو جائیں گے۔“
راین اور دوسرے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ہسپتال کے دھماکے سے قطع نظر بھی ، جس کی ذمہ داری سے اسرائیل اور فلسطینی عسکریت پسند وں دونوں نے انکار کیا ہے، اردنی باشندے فلسطینیوں کے ساتھ اسرائیل کی دائیں بازو کی حکومت اور یہودی آباد کاروں کے سلوک اور غزہ پر اسرائیل کی شدید بمباری پر سخت برہم ہیں ۔
واشنگٹن کے بروکنگز انسٹی ٹیوشن کے سینئر فیلو بروس ریڈل نے وی او اے کوبتایا کہ اسرائیل کے ساتھ اردن کا 1994 کا امن معاہدہ غیر مقبول ہے ۔اگرچہ سلطنت کی کچھ سیاسی جماعتوں نے تعلقات ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے ، تاہم شاہ عبداللہ نے ان مطالبوں کو مسترد کر دیا ہے اور اسرائیلی ۔ فلسطینی بحران کے دو ریاستی حل پر زور دینا اور کام کرنا جاری رکھا ہے ۔
انہوں نے کہا“ لیکن یہ بحران اپنے دائرے اور شدت کے اعتبار سے اتنی غیر معمولی شکل اختیار کررہا ہے کہ شا ہ کےلیے اسرائیل کے ساتھ ارد ن کے تعلقات میں تبدیلی کےمطالبوں پر توجہ نہ دینا مشکل ہو جائے گا۔“
انہوں نےکہا کہ ، “مسئلہ ، جسے شاہ اچھی طرح سمجھتے ہیں ، یہ ہے کہ اگر وہ اسرائیل کے ساتھ اپنا اسٹیٹس تبدیل کرتے ہیں تو اس سے امریکہ کے ساتھ ان کے دو طرفہ تعلقات متاثر ہو سکتے ہیں ۔ اردن کےلیے امریکی امداد ، جس کی کانگریس سے منظوری لازمی ہوتی ہے ، اور جو اردن کی معیشت کےلیے اہم ہے ، ملک کے استحکام کو بر قرار رکھنے کے لیے کلیدی اہمییت رکھتی ہے ۔ “
تجزیہ کار اردن کو عسکری انتہا پسندوں کے خلاف لڑنے والے امریکہ کے ایک اہم فوجی اتحادی اور مسائل کے شکار خطے کو مستحکم رکھنے والی ایک طاقت کے طور پر دیکھتے ہیں ۔
ریڈل نے غزہ کے مستقبل کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا۔
انہوں نے کہا، “جب جنگ ختم ہو جائے گی تو غزہ پر کون حکمرانی کرے گا؟ اسرائیل کہتا ہے کہ وہ حماس نہیں ہوگی؛ تو پھر وہ کون ہوگا ۔ یقینی طور پر وہ فلسطینی اتھارٹی نہیں ہوگی ۔“ مصر غزہ پر قبضہ نہیں کرنا چاہتا ۔ ہمیں یہاں ایک حقیقی مسئلہ در پیش ہوگا۔ جب جنگ ختم ہو جائے گی تو غزہ میں قانون کی حکمرانی اور قانون کی حکمرانی اور انسانی حقوق کا احترام کون کرے گا؟“
اب جب اس مسئلے کے اتنے بہت سے فریق ہیں اور ان میں سے ہر ایک کا اتنا بہت کچھ داؤ پر لگا ہے، تجزیہ کاروں نے ان خدشات کا اظہار کیا ہے کہ اسرائیل ۔حماس تنازعہ مشرق وسطی ٰ میں پھیل سکتا ہے ۔