افغان حکام نے پاکستانی امداد لینے سے انکار کردیا

500
فائل فوٹو

افغانستان کی عبوری طالبان حکومت نے زلزلہ متاثرین کے لیے پاکستان سے امداد قبول کرنے سے انکار کردیا ہے۔ اس پیش رفت کو دونوں پڑوسیوں کے درمیان تعلقات میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے ایک اور ثبوت کے طورپر دیکھا جا رہا ہے۔

افغانستان میں گذشتہ ہفتے کے روز آنے والے زلزلے میں کم از کم دو ہزار افراد ہلاک ہو گئے اور متعدد گاوں متاثر ہوئے تھے۔ اس کے بعد بدھ کے روز ایک اور زلزلہ آیا جس سے مزید نقصانات ہوئے۔

پاکستان کے نگراں وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ نے فوری مدد کی پیش کش کرتے ہوئے ریسکیو اور ریلیف ٹیمیں بھیجنے کا اعلان کیا۔ لیکن کابل کی جانب سے کلیئرنس دینے سے انکار کی وجہ سے امداد ی سامان اب تک افغانستان روانہ نہیں کیا جاسکا ہے۔

 گوکہ دونوں ملکوں کے حکام کی جانب سے اس کی اب تک کوئی باضابطہ وجہ نہیں بتائی گئی تاہم دونوں پڑوسیوں کے درمیان موجودہ کشیدگی  طالبان کی جانب سے امداد کو مسترد کردینے کی بنیادی وجہ معلوم ہوتی ہے۔

‘وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ کی پوسٹ انکار کی وجہ’

میڈیا رپورٹ کے مطابق طالبان کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پاکستانی وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ کی سوشل میڈیا ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر ایک پوسٹ امداد قبول کرنے سے انکار کی وجہ ہے۔

یہ تنازع دراصل مغربی افغان صوبے ہرات میں 6.3 شدت کے زلزلے کے جھٹکوں کے بعد شروع ہوا۔ اسلام آباد نے زلزلے کے فوراً بعد اعلان کیا کہ وہ متاثرین کے لیے موسم سرما میں استعمال ہونے والے 5000 خیمے، 15000کمبل، کھانے پینے کی اشیاء، طبی ساز و سامان اور ڈاکٹروں کی ایک ٹیم کے ساتھ ایک ٹرانسپورٹ طیارہ روانہ کرے گا۔

پاکستان کے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی نے امدادی ساز و سامان کی کھیپ تیار کی اور اس کی تفصیلات اپنی سرکاری ویب سائٹ پر بھی ڈال دی۔

اس کے چند گھنٹے بعد کاکڑ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر دعویٰ کیا کہ یہ امداد طالبان کی درخواست پر بھیجی جارہی ہے۔

کاکڑ کو بیان دیتے وقت محتاط رہنے کا مشورہ

لیکن طالبان نے امداد کے لیے کسی بھی درخواست کی تردید کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بیرونی امداد کے لیے آج تک باضابطہ اپیل نہیں کی ہے۔

میڈیا رپورٹ کے مطابق طالبان کے ایک عہدیدار کا کہنا تھا کہ “ایسی کوئی درخواست نہیں کی گئی تھی اور ہماری حکومت کا مذاق اڑایا گیا۔ “

جب ان سے پاکستانی امداد قبول کرنے سے انکار کی وجہ دریافت کی گئی تو طالبان رہنما نے پاکستان کے نگراں وزیر اعظم کاکڑ کے بیان کو “غیر ذمہ دارانہ” قرار دیتے ہوئے اس پر نکتہ چینی کی۔ انہوں نے پاکستانی رہنما کو مشورہ دیا کہ وہ افغانستان کے بارے میں بیانات جاری کرتے ہوئے محتاط رہیں۔

دریں اثنا ایک اعلیٰ پاکستانی اہلکار نے طالبان رہنما کے دعووں پر سوال کیا کہ آخر اسلام آباد امدادی سامان افغانستان کیوں نہیں بھیج سکتا؟

انہوں نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ، “کابل نہ تو ہاں کہتا ہے اور نہ ہی نہیں۔ انہوں نے امداد کی باضابطہ درخواست کی تھی اور کہا تھا کہ وہ یہ بتائیں کہ اسے کب بھیجنا ہے۔”

پاکستان اور افغانستان کے کشیدہ تعلقات

پاکستان اور افغانستان کے درمیان حالیہ دنوں میں تعلقات مزید کشیدہ ہوگئے ہیں۔ حکومت پاکستان کی جانب سے 1.7ملین افغان باشندوں سمیت تمام غیر ملکیوں کو یکم نومبر تک ملک چھوڑنے کا ڈیڈ لائن مقرر کیے جانے کے بعد سے کشیدگی میں مزید اضافہ ہوا ہے۔

طالبان رہنماوں نے اسلام آباد کے اس فیصلے پر سخت نکتہ چینی کی ہے اور پاکستان سے اس پر نظر ثانی کرنے پر زور دیا ہے۔ انہوں نے متنبہ کیا ہے کہ اس فیصلے سے دو طرفہ تعلقات کو “سنگین نقصان” پہنچ سکتا ہے۔

دوسری طرف پاکستان نے واضح کیا ہے کہ یکم نومبر کی آخری تاریخ 1.4ملین سرکاری طورپر رجسٹرڈ افغان مہاجرین اور آٹھ لاکھ سے زائد افغان شہریت کارڈ رکھنے والوں کے لیے نہیں ہے، جو ملک میں قانونی طور پررہ رہے ہیں۔