اسرائیل نے کہا ہے کہ حماس کے حملے کے دوران کم از کم 199 لوگوں کو یرغمال بنایا گیا جن میں سے زیادہ تر عام شہری ہیں ۔ ان میں شیر خوار بچوں سے لے کر بوڑھے افراد تک شامل ہیں ۔ ان میں سے کچھ کے خاندانوں کو حملے کے دوران پریشان کن ٹیلی فون کالز یا ٹیکسٹ ملے تھے۔ جب کہ باقی خاندانوں کو اپنے عزیزوں کی طرف سے کوئی خبر نہیں ملی اور بعد میں انہوں نے ویڈیو پر دیکھا کہ انہیں یرغمال بنا لیا گیا ہے ۔
وہ اب تک بے چینی سے یہ پتہ چلانے کی کوشش میں ہیں کہ آیا یرغمالی زندہ بھی ہیں اور وہ ان کے بارے میں، ان کی زندگی اور ان کے خوابوں کے بارے میں بات کررہے ہیں ۔
جوڈیتھ اور نتالیہ رانن
یرغمالوں میں سے شکاگو کی دو خواتین جوڈیتھ اور نتالیہ رانن بھی شامل ہیں ۔ ان کے ربی کے مطابق جوڈیتھ رانن اور ان کی سترہ سالہ بیٹی اپنے ایک عزیز کی 85 ویں سالگرہ اور یہودیوں کا ہالی ڈے سیزن منانےکے لیے اسرائیل جانے پر بہت خوش تھیں ۔
وہ دونوں اپنے سفر کے دوران پیغامات بھیجتی رہیں اور یہ بتاتی رہیں کہ وہ اپنے سفر سے بہت لطف اندوز ہو رہی ہیں ۔ وہ غزہ کی سرحد سے کچھ فاصلے پر واقع اسرائیل کے علاقے نہال اوز میں قیام پذیر تھیں ۔
حماس کے حملے کے بعد ایک ہفتے سے خاندان کو ماں اور بیٹی کی کوئی خبر نہیں ملی ۔ شکاگو کے ایک مضافاتی علاقے میں ان کی کمیونٹی کو ڈر ہے کہ وہ ان لگ بھگ 150 لوگوں میں شامل ہیں جنہیں حماس کے عسکریت پسندوں نے یرغمال بنایا ہے۔
17 سالہ نتالیہ نے حال ہی میں ہائی اسکول سے گریجو ایشن کی تھی ۔ اس کے انکل اوی ضمیر نے جمعرات کی شام ، ایونسٹن میں کمیونٹی کی جانب سے ایک دعائیہ تقریب میں کہا کہ وہ بیرون ملک اپنے رشتے داروں سے ملنے گئی تھی۔ وہ ایک بہت رحمدل لڑکی ہے ۔ وہ جانوروں سے محبت کرتی ہے۔ ہم اس کےلیے دعا گو ہیں ۔ ہمیں امید ہے کہ وہ اپنی والدہ کےساتھ واپس آ جائے گی۔
نتالیہ کی آنٹی سیگل ضمیر نے آنسوؤں کے درمیان کہا کہ میں دعا کرتی ہوں کہ وہ زندہ واپس آجائیں ۔ وہ بے گناہ ہیں اور بہت پیار کرنے والی ہیں اور انہوں نے کچھ نہیں کیا ہے۔
ربی کی اہلیہ اور جوڈیتھ کی دوست یہاڈس ہٹ (Yehudis Hecht )نے کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ جوڈیتھ ایک مضبوط خاتون ہیں اور ہم دعا کرتے ہیں کہ ہم جلد ہی انہیں اپنی بیٹی نتالیا کے ساتھ بحفاظت واپس آتے دیکھیں گے۔
اسرائیل کی ایک اور یرغمال یافا آدر ہیں جو اسرائیل کے علاقے نیروز میں مقیم تھیں میں ۔ یافا آدر کی پوتی ادوا آدر (Adva Adar) نے بتایا کہ اس کی دادی کو پڑھنے لکھنے کا اور سب سے جڑے رہنے کا شوق تھا ۔ 85 سال کی عمر میں بھی وہ اکثر واٹس ایپ پر اپنے خاندان کو میسیج اور تصویریں بھیجتی رہتی تھیں ۔ وہ فیس بک پر سرگرم تھیں ۔
اب کیوں کہ ان کے لیے اپنے گھر سے باہر آنا جانا اور چلنا پھرنا مشکل ہو گیا تھا اس لیے حالیہ برسوں میں ان کے لیے آن لائن رہنا خاص طور پر اہم ہو گیا تھا۔ وہ خود کو مصروف رکھتی تھیں اور وہ جانتی تھیں کہ وہ کیا کرنا چاہتی تھیں۔
انہیں کتابیں پڑھنے کا بہت شوق تھا ۔ ہم ان سے کہتے تھے کہ ہم آ پ کو کنڈل لادیں تو وہ کہتیں تھیں ، نہیں مجھے کتابوں میں کاغذ کی خوشبو پسند ہے ۔
تو جب سات اکتوبر کو نیروز پر حماس کا حملہ ختم ہوا اور کوئی بھی آدر اور ان کے خاندان کو تلاش نہ کرسکا تو ان کے خاندان کو تشویش ہوئی ۔ یہ تشویش اس وقت خوفناک حد تک بڑھ گئی جب وہ ویڈیو منظر عام پر آئی جس میں انہیں غزہ کے قریب گلابی پھولوں والا کمبل لپیٹے ایک گولف کارٹ میں کہیں لے جاتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔
وہ فوٹیج اس بارے میں پہلا ثبوت تھا کہ حماس جنگجوؤں نے نہ صرف 1400 سے زیادہ اسرائیلیوں کو ہلاک کیا ہے جن میں سے اکثریت عام شہریوں کی تھی ، بلکہ درجنوں کو ، ان کی عمر کے قطع نظر ،غزہ لے گئے تھے اور انہیں یرغمال بنا لیا تھا۔ یرغمالیوں کی صورت حال اس ملک کو درپیش اب تک کا انتہائی پیچیدہ بحران ہے۔
ان کے تین بچوں اور بہت سے پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کو فکر ہے کہ ان کے پاس اپنے بلڈ پریشر اور شدید درد کی دوائیں نہیں ہیں ۔ ادوا آدر نے کہا کہ وہ واقعی ہمارے خاندان کی روشنی تھیں ۔ وہ اپنی زندگی سے پیار کرتی ہیں ۔ وہ اچھا کھانا پسند کرتی ہیں ۔
یہ تھیں ان اسرئیلی یرغمالوں میں سے کچھ کے بارے میں وہ باتیں جو ان کے عزیز انہیں یاد کرتے ہوئے شیئر کررہے ہیں ۔