بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی ترجمان نے ڈیرہ بگٹی، سوئی اور ملحقہ علاقوں میں عام بلوچوں کے خلاف ریاستی یلغار پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ریاست جس طریقے سے بلوچوں کے خلاف اپنے مظالم کا دائرہ دن بدن بڑھا رہی ہے اس سے ان کی فرسٹریشن واضح نظر آ رہی ہے۔ بلاوجہ و بلاجواز بلوچستان کے مختلف علاقوں میں فوجی آپریشنز کا ایک نیا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے جس کا بنیادی مقصد عام عوام کو ڈرا دھمکا کر خوفزدہ کرنا ہے۔ پاکستانی فوج طاقت اور بندوق کے زور پر عوام کو اپنی طرف راغب کرنا چاہتے ہیں جو کسی بھی صورت ممکن نہیں۔
ترجمان بی ایس او آزاد نے کہا کہ بلوچستان کے علاقے ڈیرہ بگٹی میں گزشتہ تین دنوں سے ریاست نے عام عوام کے خلاف یلغار شروع کر دی ہے۔ اس وقت کے اطلاعات کے مطابق درجنوں افراد فوج کے اہلکار اٹھا کر لاپتہ کر چکے ہیں۔ سیکورٹی فورسز کے جرائم کو چھپانے کیلئے علاقے میں انٹرنیٹ سروس کر بند کر دیا گیا ہے تاکہ اطلاعات کو باہر آنے سے روکا جا سکیں۔ اس وقت تک جن افراد کی گمشدگی کا ریکارڈ رپورٹ ہوا ہے ان میں یعقوب ولد شاہ مور بگٹی، کریم ولد غلام رسول بگٹی، مصطفیٰ بگٹی ولد غلام رسول بگٹی، بجار ولد حاجی سبزل بگٹی، معیا خان بگٹی، دین محمد ولد جونسال بگٹی، علی بخش ولد علی خان بگٹی، فاروق ولد براہیم بگٹی، ہاشم ولد سوری بگٹی، دل محمد ولد جوانسال بگٹی،شریف ولد غوث بگٹی، پہٹان ولد مرزان بگٹی، بابُل بگٹی عزیز ولد باری بگٹی، سلیمان ولد باری بگٹی اور علی دوست ولد سوری بگٹی شامل ہیں۔ جبکہ سندھ سے بھی ایک بلوچ نوجوان افضل بلوچ کو فورسز کے اہلکاروں کی جانب سے فائرنگ کا نشانہ بناکر شہید کیا گیا ہے۔ یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ ریاستی فورسز نے ان علاقوں میں لوگوں کو ہراساں کیا ہو بلکہ 2005 سے مسلسل ڈیرہ بگٹی میں آپریشنز و قتل و غارت کا سلسلہ جاری ہے۔ باقی ماندہ بلوچستان اپنی جگہ اس وقت تک صرف ڈیرہ بگٹی سے ہزاروں لوگ لاپتہ ملینگے جبکہ ریاستی جرائم کا یہ دائرہ کار دن دن بڑھ رہی ہے۔
ترجمان نے بیان کے آخر میں کہا کہ بلوچ عوام کو چاہیے کہ وہ ریاستی تشددانہ پالیسی اور بلوچ عوام کے خلاف اس فوجی یلغار کو برداشت کرنے کے بجائے بلوچ قومی تحریک کو مضبوط اور توانا بنانے کیلئے آگے آئیں کیونکہ ہماری قومی ہستی کا تعلق بلوچ قومی تحریک کی کامیابی سے جڑا ہوا ہے۔ عالمی اداروں نے دہرا معیار اپنایا ہوا ہے اور اپنے چھوٹے مفادات کیلئے انہوں نے بلوچستان جیسے مظلوم اقوام کو بھول دیا ہے اس لیے بلوچ قوم کو چاہیے کہ وہ اپنی قوت اور طاقت سے جدوجہد کی مضبوطی اور کامیابی کیلئے آگے آئیں۔ بلوچستان میں آج ریاست جس پالیسی پر گامزن ہے یہ ہر قابض نے غلامی کے آخری دنوں آزمایا ہے لیکن انہیں ہمیشہ ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔