گھر سے بھاگنے کے واقعات میں اضافہ کیوں؟۔ منیب بلوچ

358

گھر سے بھاگنے کے واقعات میں اضافہ کیوں؟
تحریر: منیب بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ

آج ایک اہم مسئلے پر آپ لوگوں کی توجہ دلانا چاہتا ہوں، جو بڑی تیزی کے ساتھ پیش آرہی ہے، وہ گھر سے بھاگ کر نوجوان جوڑوں کا نکاح کرنا ہے، خصوصا خاران واشک خضدار میں گزشتہ ایک سال کے دوران ایسے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے ،اور اس وقت ایک لڑکی اور دو لڑکے قتل بھی ہو چکے ہیں ،اور یہ اکثر 15 سے 25 سال کے درمیان کے عمر کے نوجوان ہوتے ہیں، اور یہ وہ عمر ہوتا ہے ،جس میں انسان نیا نیا جوان ہوتا ہے ،اور اس کے پاؤں زمین سے اوپر محسوس ہوتے ہیں ،انہیں اس عمر میں اپنی جوانی کی طاقت کا نشہ ہوتا ہے، اور یہ نشہ ان کی دماغ آنکھیں اور کان سب بند کر دیتا ہے ، ان کی سوچنے سمجھنے اور دیکھنے کی صلاحیت کو ختم کرتا ہے، اور جو اس کا دل کہتا ہے وہ اسی کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں ہر چیز کی قربانی دینے پر تیار ہوتا ہے، یہاں تک کہ اپنے خاندان اور اس بوڑھے باپ اور ضیعف ماں کی عزت اور وقار کا بھی خیال نہیں رکھا جاتا ہے جو ان کے جانے کے بعد معاشرے کے سوالوں اور طرح طرح کی باتوں کو جواب دینے کے لئے روز مرتے ہیں، بلکہ سوسائٹی سے لاتعلق ہوکر گھر تک محدود ہوکر تمام زندگی اس جرم کا احساس ان کی زندگی کو اجیرن بنا دیتی ہے،اور یہ جرم بچوں کی تربیت کی کمی کی ہوتی ہے۔

والدین آج کل بچوں کی تربیت کرنے سے بالکل غافل نظر آتے ہیں،یہی وجہ ہے کہ نوجوان نسل اپنے فیصلے خود کرنے لگے ہیں،اس حوالے سے اگر دیکھا جائے تو اس میں ایک اہم وجہ بچپن میں بچوں کے منگنی بھی ہے،اس عمر میں جب بچے بالغ بھی نہیں ہوتے والدین ان کے رشتے طے کرتے ہیں،اور جب بچے بڑے ہوتے ہیں تو وہ اپنی پسند کے رشتے چاہتے ہیں، جب ان پر زبردستی کی جاتی ہے تو وہ بغاوت پر اتر آتے ہیں،اور اس راستے کا انتخاب کرتے ہیں ،جس پر نہ صرف ان کے جانوں کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے بلکہ سماج بھی ان کو قبول نہیں کرتا ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ والدین اس عمر میں بچوں کی تربیت پر خصوصی توجہ دیں، ماں اور باپ دنوں کو اپنے بچوں چاہیے بیٹا وہ یا بیٹی کے ساتھ کم ازکم اس حد تک اس کے ساتھ اس بات کو شئر کریں اور اتنا انہیں اعتماد دیں کہ وہ اپنی ہر بات کو کھل کر ان کے ساتھ اظہار کرسکیں،بچوں سے دوری اور نظر انداز کرنا غلطی ہے ،جس پر والدین کو توجہ کی ضرورت ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔