28 اگست کو بلوچستان کے مرکزی شہر کوئٹہ کے ایک ہوٹل سے تیس سالہ نور خاتون کو ان کے دو چھوٹے بچوں؛ بیٹی بانڑی اور بیٹے عبدالغفار کے ساتھ پاکستانی فورسز اور خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے گرفتاری کے بعد جبری لاپتہ کردیا۔
نور خاتون بلوچستان کے ضلع سبی کے علاقے بدرا کی رہائشی ہیں اور علاج کے سلسلے میں شال آئی ہوئی تھیں جہاں سے انھیں گرفتاری کے بعد لاپتہ کیا گیا ہے۔
مذکورہ خاتون کا خاندان بلوچستان کے سیاسی حالات کے پس منظر میں سن 1992 تک جلا وطن رہا ہے جس کے بعد ان کا خاندان دیگر مہاجرین کے ساتھ وطن واپس آیا تو بلوچ رہنماء خیربخش مری کے نظریات سے وابستگی کی بنا پر ان کے خاندان کو ریاستی اداروں نے نشانہ بنایا، گھروں پر چھاپے مارے گئے اور خاندان کے کئی لوگ جبری لاپتہ اور قتل کیے گئے۔
2008 کو اس خاندان کے فرد مزار خان ولد گھرام کو جبری لاپتہ کیا گیا جو تاحال لاپتہ ہیں اور وی بی ایم پی کی جبری گمشدگان کی فہرست میں شامل ہیں۔
عارف ولد سعیدان، یوسف ولد بنگل بھی اس خاندان سے وابستہ تھے جن کو جبری گمشدگی کے ایک مہینے کے بعد ماورائے عدالت قتل کرکے انکی لاشیں پھینکی گئیں۔ نور عالم ولد دلشاد 2016 سے جبری لاپتہ ہیں اور عرض محمد ولد پیر محمد کو افغانستان میں نشانہ بناکر قتل کیا گیا جو وہاں مہاجرت کی زندگی گذار رہے تھے۔
سیاسی و سماجی حلقوں کا کہنا ہے کہ اس خاندان پر ریاستی مظالم سے واضح ہے کہ ریاست نور خاتون اور ان کے بچوں کو بھی اجتماعی سزا کا نشانہ بنا رہی ہے۔
بلوچ خواتین کی جبری گمشدگی اور گرفتاریاں:
بلوچستان میں یہ پہلا واقعہ نہیں کہ جہاں خواتین اور بچوں کی جبری گمشدگی کے واقعات رپورٹ ہوئے ہوں، رواں سال بلوچستان میں جبری گمشدگی کا یہ تیسرا واقعہ ہے کہ جہاں خواتین و بچوں کو پاکستانی فورسز کی جانب سے جبری حراست میں لے کر لاپتہ کردیا گیا۔
روان سال تین فروری کی رات بلوچستان کے مرکزی شہر کوئٹہ سے پاکستانی فورسز نے رات گئے سریاب کے علاقے گیشکوری ٹاون میں ایک گھر پر چھاپہ مارکر خواتین اور بچوں سمیت پانچ افراد کو جبری گمشدہ کردیا۔
جبری گمشدہ ہونے والوں میں ضعیف العمر خاتون دو کمسن بچے اور رحیم زہری اور اسکی اہلیہ رشیدہ زہری شامل تھے۔
اس کے علاوہ رواں سال پاکستانی پولیس کے کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) نے کوئٹہ کے علاقے سیٹلائٹ ٹاؤن سے ایک بلوچ خاتون ماہل بلوچ کو ان کے گھر سے حراست میں لے کر پہلے نامعلوم مقام منتقل کردیا تاہم بعدازاں شدید عوامی ردعمل کے بعدازاں فورسز انہیں سنگیں الزام لگا کر منظر عام پر لائیں۔
قبل ازیں گذشتہ سال نومبر میں بولان اور گردنواح کے علاقے میں پاکستان فوج نے بڑے پیمانے پر فوجی آپریشن کا آغاز کیا جو دو ہفتوں تک جاری رہی۔ دوران آپریشن پاکستانی فورسز نے اوچ کمان کے مقام مقامی خواتین و بچوں کو حراست میں لیا جن میں زرگل مری، حنیفہ مری، در خاتون مری، ماہیسو سمالانی، گل بی بی سمالانی، سمو سمالانی، زر بخت سمالانی، بانی سمالانی، سمیدہ سمالانی، فریدہ سمالانی، راجی سمالانی اور چار سال سے لاپتہ رکھیہ سمالانی کی اہلیہ مہنا سمالی اور بیٹا کلیم سمالانی شامل تھیں۔
بولان آپریشن میں حراست میں لیے گئے خواتین کو بعدازاں سانگان کے مقام پر فورسز نے رہا کردیا۔
حالیہ خواتین و بچوں کی جبری گمشدگی کے واقعے کی بلوچ قوم پرست اور انسانی حقوق کے ادارے مذمت کرچکے ہیں جبکہ تربت سول سوسائٹی اور وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے احتجاج کا کال دی گئی اور سماجی رابطوں سائٹس پر مختلف حلقے اس عمل کی مذمت کررہے ہیں۔