کوئٹہ پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاجی کیمپ آج 5174 ویں روز جاری رہا۔
آج ضلع خاران سے سیاسی سماجی کارکناں سعید احمد بلوچ، دستگیر بلوچ سمیت دیگر خواتین نے آکر اظہار یکجہتی کی۔
تنظیم کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے وفد سے مخاطب ہو کر کہا کہ یہ قدم بلوچوں کے قاتلوں سے ہاتھ ملانے کے مترادف ہے، عدالت عالیہ بلوچ قوم کو دھوکہ دے رہی ہے عدالت تو ہر دور میں موجود تھی پہلی گمشدگی دوران انسرجنسی میں 2000 کے اوائل میں ہوتی پہلی گمشدگی کو ایک دہائی گزرنے کے باوجود اب تک عدالت عالیہ ایک بھی ذمہ دار کو سزا دینے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے، اس کے ٹھوس ثبوت موجود ہے کہ بلوچوں کے خلاف ان ظالمانہ اقدامات کے پیچھے خفیہ اداروں کا ہاتھ ہے نام نہاد قوم پرست لاپتہ افراد کو ایک سیاسی کارڈ کے طور پر استعمال کرتے آرہے ہیں مگر یہ لاحاصل ثابت ہورہے ہیں کہ اس بات میں کوئی وزن ہی نہیں کہ حکمران عدالت بلوچ قوم کے لئے آخری امید ہے کوئی کیسے پاکستانیوں پر بھروسہ کرے گا جب کہ ان کی گورنمنٹ کے انتظامی اور قانون ساز ادارے بلوچوں کو راضی کرنے کے حوالے سے اعتماد سازی میں ناکام ہوچکے ہیں البتہ لاپتہ افراد کا مسلہ سب سے اہم اور سنگین ہے مگر اسلام آباد اور بلوچستان کے درمیان خلا کی وجہ نہیں بلوچستان کا مسلہ انسانی حقوق کی پامالی تک محدود نہیں یہ بہت ہی پیچیدہ اور سیاسی مسئلہ ہے ۔