بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے زیر اہتمام پروفیسر صباء دشتیاری کی یاد میں کلچرل سینٹر پنجگور میں صباء لیٹریری فیسٹول کا انعقاد کیا گیا، جس میں طلباء طالبات سمیت دیگر مکاتب فکر سے وابستہ افراد نے بڑی تعداد میں شرکت کی ۔
مقررین نے صباء دشتیاری کی زندگی کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا اور انکی بلوچی زبان وادب و ثقافت کے لیے دی جانے والی قربانیوں اور خدمات کو شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیاگیا اور زندگی کے لمحات کو ایک ڈاکومنٹری فلم کی شکل میں پیش کیاگیا ۔
فیسٹول کے موقع پر کتابوں کے اسٹال بھی لگائے گئے تھے ، بلوچ آرٹسٹوں نے بھی اپنے پینٹنگ کی نمائش کیا فیسٹول کے شرکاء نے پینٹنگ اور کتابوں کی اسٹالز میں خصوصی دلچسپی لی۔ فیسٹول کے موقعے پر مختلف ثقافتی شو بھی پیش کیئے گئے۔
فیسٹول کے شرکاء سے ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ، پروفیسر اکبر غمشاد، فوزیہ بلوچ، الطاف بلوچ، طاہر حکیم، بالاچ بالی اور دیگر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ صباء دشتیاری بلوچ زبان، ادب اور ثقافت کے لیے ایک سمبل تھے جس کی پوری زندگی بلوچی زبان کی ترقی وترویج کے لیے وقف رہی ۔
انہوں نے کہا کہ آج اگر وہ جسمانی طور پر ہم میں موجود نہیں ہے مگر جو فکر وفلسفہ دے کر گئے ہیں وہ تا قیامت لوگوں کے دلوں میں زندہ رہے گا آج کا یہ فیسٹول اس بات کی گواہ ہے کہ صباء فکری طور پر زندہ اور ہم میں موجود ہے صبا کے نام فیسٹول منعقد کرنے والے خراج تحسین کے مستحق ہیں جو اپنے ہیروز کو بھولے نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کسی بھی قوم کی حیات کے لیے اسکی زبان ادب اور ثقافت کا برقرار رہنا لازمی ہے اس علمی دور میں ہمیں ایجوکیشن کی طرف بھی توجہ دینا ہے جب ہم باعلم ہونگے تو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرسکیں گے علم کے بغیر نہ کسی قوم نے ترقی کی ہے اور نہ اسکے امکانات ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ ہر فرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی بساط کے مطابق علم وزانت شعور اور آگاہی کے عمل کو لیکر آگے بڑھے غلام حسین صباء دشتیاری ایک استاد اور فکروزانت کے حامل شخصیت تھے اسے بھولنا ناممکن ہے ۔
انہوں نے کہا کہ صباء دشتیاری کو بلوچی زبان پرعبور حاصل تھا بلوچی ادب کو زندہ رکھنے کے لیے ان کا کردار لازوال اور ناقابل فراموش ہے بلوچ صرف ایک قوم کا نام نہیں بلکہ یہ اپنی ایک تاریخ رکھتا ہے عزت واحترام اسکا فلسفہ حیات ہے صباء نے بلوچ کوڈ کو تقویت بخشا کوئی بھی قوم اپنی زبان اور ثقافت سے دستبردار نہیں ہوسکتا بلوچ بھی اپنی زبان اور ثقافت پر فخر کرتا ہے زبان اور ادب کے فروغ کے لیے غلام حسین نے جاندار کردار ادا کیا جس سے ہماری نسل کو بلوچ زبان ادب سے شناسائی ملی وہ ایک انسان دوست شخصیت تھے ہمیشہ انسانیت کے لیے جہدوجہد کرتے رہے انسانی اقدار اور شخصی آزادی پر یقین رکھتے تھے شہید صباء دشتیاری نے علم وزانت کی غرض سے ملیر میں ایک لائبریری کی بھی بنیاد رکھا تھا جس میں بلوچ زبان ادب کو محفوظ رکھا۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا وجود اس وقت برقرار رہے گا جب ہم اپنی زبان اور ثقافت کی حفاظت کرینگے خود کو منوانے کے لیے علم موثر ہتھیار ہے علم کو اجتماعی سوچ کے تابع بنانا ہوگا جس طرح صباء دشتیاری یہ خزانہ دوسروں میں منتقل کرکے ہم سے جسمانی طور پر رخصت ہوئے اسی طرح ہمیں بھی اپنی زبان ادب اور ثقافت کے لیے کردار ادا کرنا ہے آج اگر بلوچی نصاب موجود ہے یہ صباء دشتیاری کا دیں ہے وہ اپنے اندر ایک ادارہ تھے جسے فراموش نہیں کیا جاسکتا صدیوں بعد اس طرح کے شخصیات جاکر پیدا ہوتے ہیں انکی شہادت سے ایک ناقابل تلافی نقصان ہوا۔
مقررین نے کہا کہ سیاست بامقصد ہو تو وہ تبدیلی کا زریعہ بنتا ہے سیاست میں طلباء پر پابندی کا مقصد شعور اور فکر کا گلا گھونٹنا ہے ایک طالب علم ہی اپنے قوم کو تبدیلی کی طرف لیکر جاتاہے احساس کمتری کے شکار قومیں کھبی بھی ایک خوشحال زندگی کی طرف نہیں جاسکتے اس لیے ہمیں انفرادیت کی طرف دھکیلا گیا ہے ہر کوئی اپنا سوچنے لگا ہے جب ہم سیاست کو قوم کی اجتماعی ترقی اور زندگی کا مقصد بنائیں گے تب جاکر ہم بامقصد سیاست کا دعویدار بن سکتے ہیں بلوچ سماج میں خواتین کو غیرت مہزب کے نام پر چاردیواری میں جاکر بند کردیا گیا ترقی اور آگے بڑھنے کے لیے خواتین کا کردار لازمی ہے اس پر ہم سب کو مل کرنا کام کرنا ہوگا فیسٹول میں خواتین کی بڑی تعداد میں شرکت حوصلہ افزاء ہے ۔
انہوں نے کہا کہ کلچر ایمپرمیزل ہم پر مسلط کی گئی ہے لٹریچر لبزانک ایک عکس ہے جو ثقافت اور زبان کی عکاسی کرتا ہے بلوچ قبضہ گیر نہیں ہے اپنی زمین پر آباد ہے مردوں کے ساتھ خواتین کو بھی بلوچ ادب زبان ثقافتی ورثہ کے تحفظ کے لیے ہاتھ بھیٹانا ہے ۔
فیسٹول کے موقع پر پنجگور کے معروف آرٹسٹوں پروفیسر عبدالحفیظ گوہر جی، نور فاطمہ، دابعہ، مائین ،سعید، مہیم، ہدایت اور، ملیحہ نے کلچرل سینٹر کی دیواروں کو اپنے پینٹنگ اور فن پاروں سے مزئین کر رکھا تھا