بلوچ نیشنل موومنٹ کے ادارہ انسانی حقوق پانک نے اگست 2023 کی رپورٹ جاری کردی ہے۔
بی این ایم رپورٹ میں توہین رسالت کے جھوٹے الزام میں تربت میں قتل کیے گئے عبدالرؤف برکت کا قتل، مغربی بلوچستان میں ھانی گل اور ان کے شوہر سمیر کا قتل ، جھل مگسی میں کسان امداد جویو کا قتل، نورخاتون اور ان کے بچوں کی جبری گمشدگی، جبری لاپتہ غلام فاروق زہری کا حراستی قتل اور انسانی حقوق کی کارکن ایمان مزاری کی گرفتاری کے موضوعات پر تفصیلی رپورٹ شامل کیے گئے ہیں۔
پانک کی طرف سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستانی فوج نے اگست 2023 میں 64 افراد ماورائے عدالت گرفتاری کے بعد جبری لاپتہ کیا جو کہ گذشتہ مہینے جبری گمشدہ کیے گئے افراد کی تعداد سے زیادہ ہے۔گذشتہ مہینے 57 افراد جبری لاپتہ کیے گئے تھے۔ادارہ پانک نے جولائی 2023 کو جبری گمشدگیوں کے حوالے سے سال کا سب سے بدترین مہینہ قرار دیا تھا لیکن اب اگست 2023 کی اعداد و شمار یہ بتاتے ہیں کہ اگست 2023 کا مہینہ جبری گمشدگیوں کے حوالے سے اب تک سال کا بدترین مہینہ تھا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے اعداد و شمار واضح کرتے ہیں کہ حالات دن بدن خراب تر ہوتے جا رہے ہیں اور پاکستان کے فوجی حکام اور ریاستی پالیسوں میں جبری گمشدگیوں کے خاتمے کے اشارے تک نظر نہیں آتے۔ہمیں خدشہ ہے کہ آنے والے دنوں میں انسانیت کے خلاف اس کے جرائم میں اضافہ ہوگا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے اگست 2023 کو 24 افراد کو ماورائے عدالت گرفتاری اور جبری گمشدہ رکھنے کے بعد ان کی جرم کی وضاحت کے بغیر تشدد کرکے رہا کر دیا گیا۔
رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ شدید معاشی دباؤ اور بیرونی سرمایہ کاروں بالخصوص چین کی دلچسپی کی وجہ سے پاکستان بلوچستان کے وسائل کی لوٹ مار میں نئے شراکتدار کی تلاش میں ہے۔ جس کے لیے اسے بلوچستان کی سیاست میں ممکنہ مخالف یا مزاحمتی قوتوں کو کمزور کرنے کی ضرورت ہے تاکہ بغیر کسی رکاوٹ کے بلوچستان کے وسائل ملٹی نیشنل کمپنیوں اور چین کی شراکت سے لوٹے جائیں۔چین بلوچ قومی تحریک کو کچلنے اور سیاسی قوتوں کو قابو کرنے کے لیے سخت دباؤ دے رہا ہے جس سے آنے والے دنوں میں انسانی حقوق کی صورتحال کی گھمبیر ہونے کا خدشہ ہے۔
پانک کی رپورٹ میں توجہ دلایا گیا ہے کہ مکران ڈویژن جو کہ چین ، پاکستان اقتصادی راہداری پروجیکٹ ( سی پیک) کے لیے سب سے اہم ہے پاکستانی فوج کی کارروائیوں کا مرکزی ہدف رہا ہے، یہاں جبری گمشدگی کے 22 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق اگست 2023 ، فوجی کارروائیوں کے حوالے سے بھی بلوچستان پر بھاری رہا ، پانک کی رپورٹ کے مطابق ضلع کیچ کی تحصیل تمپ کے مختلف علاقے ھیرآباد، ھوت آباد، بالیچہ اور ناصر آباد پر پاکستانی فوج نے متعدد بار فوج کشی کی ، لوگوں کو حراست میں لے کر تشدد کرکے رہا کیا ، ان گرفتار افراد کی تعداد پانک کی ماہانہ رپورٹ میں شامل نہیں۔
مزید کہا گیا ہے کہ غلام فاروق ولد محمد وارث ، جنھیں 27 اکتوبر 2022کو مستونگ سے جبری لاپتہ کیا گیا تھا ، کی لاش 31 اگست 2023 کو کلی قمبرانی روڈ پر انگور کے باغ سے برآمد ہوئی۔پانک کی رپورٹ میں غلام فاروق کے حراستی قتل پر تفصیلی رپوٹ شامل کرکے کہا گیا ہے حراست میں قتل کی اس پالیسی کو نسل کشی کے علاوہ دوسرا نام نہیں دیا جاسکتا کیونکہ اس میں ان افراد کو نشانہ بنایا جا رہا ہے جو اپنی قومی شناخت کی بقاء کے لیے زور دیتے ہیں۔اس نسل کش پالیسی کو روکنے کے لیے بین الاقوامی اداروں کو دو ٹوک موقف کے ساتھ پاکستان پر اس وقت تک دباؤ برقرار رکھنا ہوگا جب تک پاکستانی فورسز جبری گمشدگی اور حراستی قتل کی اپنی پالیسی سے دست بردار نہیں ہوتے۔ضروری ہے کہ اس امر کا جائزہ لیا جائے کہ کیا اس معاملے میں عالمی عدالت انصاف میں پاکستانی فوج کے خلاف انسانیت کے خلاف جرم کے الزام میں مقدمہ چلایا جاسکتا ہے،کیونکہ پاکستانی عدالتیں فوج کے خلاف کسی بھی معاملے میں انصاف فراہم کرنے کی اہلیت نہیں رکھتیں۔
پانک کی رپورٹ کے مطابق ، گذشتہ مہینے کیچ کے مرکزی شہر تربت میں لینگوئج ٹیچر عبدالرؤف برکت کو توہین رسالت کے جھوٹے الزام میں قتل کردیا گیا، نصیرآباد میں بااثر افراد نے کسان امداد جویو کو قتل کردیا ، پھرہ (ایرانشھر) ، مغربی بلوچستان میں مہاجرت کی زندگی گزارنے والے ’سمیر اور رخسانہ (ھانی گل بلوچ)‘کے اغواء اور قتل کرکے لاشیں جلانے کے واقعات بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے نمایاں واقعات میں سے ہیں جنھوں نے بلوچ سماج میں عدم تحفظ کے احساس کو بڑھاوا دیا۔علاوہ ازیں انسانی حقوق کی کارکن اور بلوچوں کی جبری گمشدگی پر پرزور آواز اٹھانے والی بلوچ وکیل ایمان مزاری کی گرفتاری اور انھیں پاکستانی فوج کی طرف سے انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنانا بھی بلوچ حقوق کی آواز کو دبانے کی کوشش ہے۔ ان واقعات کی پانک نے شدید مذمت کی ہے۔