کوئٹہ سے پاکستانی فورسز کے ہاتھوں جبری لاپتہ بلوچ خاتون نور خاتون اور کمسن بچوں کی گمشدگی کے خلاف تربت میں سول سوسائٹی کیجانب سے احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔
ریاست اگر بلوچ نسل کشی سے باز نہیں آئی تو ہم سڑکوں پر نکل کر ریاست سے اپنی ننگ و ناموس اور بے حرمتی کا حساب لیں گے۔ ان خیالات کا اظہار یہاں تربت پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کیا۔
تربت سول سوسائٹی کی جانب سے 28 اگست کو کوئٹہ کے مقامی ہوٹل سے نور خاتون اور اس کے دو معصوم بچوں عبدالغفار اور بانڑی کی ماورائے عدالت گرفتاری اور جبری گمشدگی کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔
احتجاجی مظاہرے سے تربت سول سوسائٹی کے صدر گلزاردوست اور انسانی حقوق کمیشن کے رکن محمد کریم گچکی نے خطاب کیا۔
مقررین نے کہا کہ زرینہ مری، نورجان ، ماھل، رشیدہ، شہناز، ثناء، حمیدہ سمیت آواران اور دیگر علاقوں سے بھی ریاستی فورسز نے بلوچ خواتین کو اجتماعی سزا کا نشانہ بنا کر جبری لاپتہ کرچکی ہیں۔اس طرح کے بزدلانہ عمل کے خلاف بلوچ قوم کو سیاسی مزاحمت تیز کرنے کی ضرورت ہے وگرنہ یونہی ہمارے عورتوں کو اٹھا کر ہماری ننگ روندتے رہیں گے۔
انھوں نے کہاکہ زرینہ مری سے لے کر آج نور خاتون کی گرفتاری اور جبری گمشدگی بلوچ روایات کو پامال کرنے کے مترادف ہے۔ ریاست کو اپنی پالسیاں فوری بدلنی ہوں گی۔ خواتین ، بچوں اور طالب علموں کو مسلسل ہراساں کرنے سے بلوچستان میں بے چینی اور بدامنی میں اضافہ ہوا ہے۔
انھوں نے کہا کہ آئے روز بلوچستان میں سیکورٹی کے نام پر لوگوں کو اغواء کرکے جبری لاپتہ کیا جا رہا ہے جو سنگین غلطی ہے۔