مُبتلائے آرزو شہروں پر بارش ہوتی ہے تو کون سی زباں میں؟
تحریر: محمد خان داؤد
دی بلوچستان پوسٹ
ان کی آنکھیں بس بارشوں میں نہیں برستیں
ان کے نین بارشوں کے بعد بھی برستے ہیں
دھیمی دھیمی،آہستہ آہستہ
اگر کوئی ان آنکھوں میں جھانکنے کی کوشش کرے تو دیکھ پائے ان بادلوں کو جو ان آنکھوں میں ایسے رہ گئے ہیں جیسے معصوم بچے مسافروں ماؤں کے سپنوں،ارمانوں اور خیالوں میں رہ جا تے ہیں۔وہ آنکھیں میگھ ملھار ہیں۔وہ آنکھیں بارش کا بادل ہیں۔وہ آنکھیں میگھ دت ہیں۔وہ آنکھیں لگن ہیں۔من کا لگن ہیں۔وہ آنکھیں گلی گلی گھومی ہیں۔وہ آنکھیں مسافر ہیں۔وہ آنکھیں درد کا دامن ہیں۔وہ آنکھیں وچھوڑے کا آخری گیت ہیں۔وہ آنکھیں ڈھلتا سورج ہیں۔وہ آنکھیں بارش نہیں پر پورے کا پورا بارش کا موسم ہیں۔وہ آنکھیں سارنگ ہیں۔پانی کا سارنگ۔دکھ کا سارنگ۔وہ بارش مٹیالی بارش نہیں۔وہ بارش وہ نہیں کہ جب آکاش سے قطرہ گرے تو مٹیالہ ہو جائے۔وہ بارش نہیں کہ جب برسے تو دکھ، درد دھول کی ماند بیٹھ جائیں۔یہ وہ بارش بھی نہیں کہ جب اس کے قطرے برسنے لگیں تو کئی دکھ دھل جائیں۔
نہیں یہ ایسی بارش نہیں۔یہ تو دردکی بارش ہے۔ٹھہرے بادلوں کی بارش ہے۔یہ وہ میگھ ملھار نہیں کہ استنبول سے اُٹھے اور دکن تک بس کرے۔کارونجھر کی کور سے اُٹھے اور مکران کے پہاڑوں پر برسے نہیں یہ میگھ ملھار تو آنکھوں میں رہ جانے والا میگ ہے جہاں آنکھیں سفر کریں گی وہاں یہ درد کی بارش جائے گی!یہ ٹھہر جانے والی بارش نہیں،یہ مسافر بارش ہے۔
یہ وہ سارنگ ہے۔جو آنکھوں میں آکر ٹھہر گیا ہے۔یہ آنکھوں کا ملھار ہے۔یہ آنکھوں کا ساون ہے۔یہ بادلوں کا سارنگ نہیں۔یہ دل کا سارنگ ہے۔جس کے بادل آکاش پر نہیں ہو تے اور دھرتی پر نہیں برستے یہ بادل دل پر درد کی صورت میں اُٹھتے ہیں اور آنکھوں سے چھماچھم برستے ہیں۔
تو یہ آنکھیں کسی مون سون کی منتظر نہیں رہتی۔انہیں تو بس بھانا چاہیے اور بس۔
ان آنکھوؤں سے مٹیالہ پانی نہیں برستا۔یہ وہ بارشی قطرے نہیں ہو تے کہ جب مٹی پر برسیں تو چھپی کونپلیں آنکھیں ملتی باہر آجائیں۔اور یہ وہ بارش بھی نہیں ہو تی کہ جلتی آگ پر پڑیں تو آگ بجھ جائے
نہیں۔
یہ تو وہ پانی ہے جو درد سے نموپاتا ہے۔اور جس جس چیز پر گرتا ہے اسے اشک بار کر جاتا ہے۔یہ پانی مٹیالہ نہیں۔پر یہ پانی لہو لہو لہو ہے۔اس برستے پانی سے آگ بجھتی نہیں پر آگ سوا ہو جا تی ہے
تو وہ آنکھیں بھی آگ کو سوا کر رہی ہیں
من کی آگ
وچھوڑے کی آگ
منتظر دید کی آگ
رتجگے کی آگ
ماں کے دل کے اوسیڑے(انتظار) کی آگ
دل کے تیرنے،ڈوبنے،ڈوبنے اور تیرنے کی آگ
نینوں کے برسنے کی آگ
منتظر دید کی آگ
ایسی آگ جس آگ کے لیے بابا فرید نے کہا تھا کہ
”کوُک فریدا کوُک توں جیوں ٹانڈا جوار!“
”فرید تو ایسے کوک ایسے کوک جیسے تندور میں آگ بھڑکتی ہے سُلگتی ہے!“
فرید کی جوار والی کوک اور تندور والی آگ بھی اس بارش کے سامنے ٹھنڈی ہے جو بارش ان آنکھوں سے برستی ہے جس بارش نے ماؤں کی آنکھوں،دامنوں اور معصوم بچیوں کے نینوں اور دلوں کو جلا دیا ہے
اگر یہ درد کی بارش ان محلاتوں پر برستی جن محلوں میں وہ بستے ہیں جو ان معصوم بچیوں پر الزام ترشیاں کرتے ہیں کہ ”یہ تو ڈرامہ کرتی ہیں“تو وہ محل جل جائیں اگر یہ دردیلی بارش ان کھیتوں پر برسے جن کھیتوں میں ہریالی ہو تی ہے تو وہ کھیتاں جل جائیں پر یہ درد کی بارشیں،میگھ ملھار،میگھ دت،تمام کے تمام سارنگ دکن سے دلی اور کارونجھر سے کیچ کا سفر نہیں کرتے یہ سارنگ محدود ہے
بس دل سے دید
اور دید سے دامن تک!
درد کی بارشیں ویسے بھی بہت محدود ہو تی ہیں۔یہ تو بس دامن کو جلانے،دید کو درد دینے اور دامن کو تار تار کرنے کو ہو تی ہیں یہ اس لیے نہیں ہو تیں کہ برسیں اور ”جہاں خاک!“
یہ تو بس اس لیے ہو تی ہیں کہ ”برسیں اور دامن خاک!“
ان بارشوں کو کسی آلے سے ناپا بھی نہیں جا سکتا۔اس لیے کون بتائے کہ ذاکر مجید کی ماں کی آنکھیں کتنا برسیں؟سمی کے دامن پر کتنے آنسو بہے؟فوزیہ کو درد نے کتنا دل گیر کیا؟وہ ماں جو منتظر آنکھیں لیے قبر میں ڈھلتے سورج کے ساتھ دفن ہوگی کتنا روئی تھی؟وہ ماں جو اپنے بیٹے کی بازیابی کی دعا بھی بلوچی زباں میں مانگتی تھی اور اسے یاد کر کے روتی بھی بلوچی زباں میں تھی اس کی آنکھوں سے کتنا سارنگا برسا؟!اس تصویر پر کتنے آنسو آئے اور صاف ہوئے جو تصویر اس اداس گھر میں ٹنگی ہوئی ہے جس گھر میں اب سوائے بوڑھی ماں کے کوئی نہیں رہتا جس کے سبب اب اس گھر کے ایک خالی دامن میں بہت سے جنگلی کبوتر آ بیٹھے ہیں!بارشوں سے گھاس اس گھر میں اُگ آیا ہے اور وہ ماں اپنے گم شدہ بیٹے کی تصویر پر صبح شام ماتم کرتی ہے،پر کس زباں میں؟کس موسم میں؟درد کی بارش کی زباں میں!درد کے موسم میں!
اس بارش کو ناپنے والا کوئی آلہ ایجاد ہوگا تو جل جائے گا ایسے جیسے ماؤں کی دید جلی ہوئی ہے!
ماؤں کی آنکھیں بارشی بادل ہیں اور ان کا دامن صحرائے تھر
جو بھی بارش برستی ہے دامن میں کہاں جذب ہو جا تی ہے کچھ نہیں معلوم
اس لیے آنکھوؤں کو بھی رونے دو جو سفر کر رہی ہیں۔جو درد جھیل رہی ہیں۔جو دھول دھول ہو چکی ہے
بس پیر سفر نہیں کرتے،بس پیر دھول آلود نہیں ہو تے۔بس پیر درد سے بوجھل نہیں ہو تے
پر نین بھی سفر کرتے ہیں۔درد سے بوجھل ہو تے ہیں،دھول آلود ہو تے ہیں اور یہاں تک کے لہو لہو ہو جا تے ہیں ان لہو لہو آنکھوؤں کو رونے دو برسنے دو!
ماؤں کو رونے دو
مسافر بیٹیوں کو رونے دو
سسئی جیسی بیٹیوں کو رونے دو
معصوم بہنوں کو رونے دو
نا سمجھ بچوں کو رونے دو
بھلے پہاڑوں پر پہرے رکھو
بھلے چاند کو قیدی کرو
بھلے آکاش پر زنجیریں ڈال دو
بھلے بارشوں کو روکو!!!
پر ماؤں کو رونے دو
آنکھوؤں کو رونے دو
دلوں کو رونے دو!
درد کے سیلاب کو مت روکو
سوال پر بھی وہی ہے
کیا بس وہ آنکھیں رو رہی ہیں؟
شاید ہاں؟شاید نہیں؟
”رو رہی ہے یہ زمیں،رو رہا ہے آسماں!“
اداس دھرتیوں پر بارش قطروں کی زباں میں ہو تی ہے
خوشیوں سے بھری دھرتی پر شادمانی کی زباں میں بارش ہو تی ہے
پر؟
”مُبتلائے آرزو شہروں پر
بارش ہوتی ہے تو کون سی زباں میں؟
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔