ملامت اور مزاحمت کی علامت – میرک بلوچ

260

ملامت اور مزاحمت کی علامت

تحریر: میرک بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

ایتھنز کی گلیاں ہیں ساری رات ایک بوڑھا شراب پی کر نکلا ہے لڑ کھڑاتے قدموں کے ساتھ الفاظ کے موتی بکھیر رہا ہے۔ فلسفے کی مشگافیہ بتارہا ہے درس و تدریس کا یہ عمل کسی یونیورسٹی میں نہیں بلکہ بازاروں اور گلیوں میں شاگردوں کے ہجوم کے ساتھ رواں دواں ہے۔ اور اس بوڑھے کی شاگرد بھی یکتائے روزگار ہیں اس بوڑھے کے شاگردوں میں یکتائے روزگار ارسطو بھی شامل ہے۔ یونان کے اشرافیہ کی دھجیاں بکھیر رہا ہے یہ بوڑھا زہر کا پیالہ پی کر بھی امر ہوگیا ہے۔ یونان کی باطل اشرافیہ ناکام ہوگئے اس بوڑھے کے شاگرد عظیم فلسفہ لیکر آگے بڑھتے رہیں۔ یہ بوڑھا کون تھا ؟ یہ بوڑھا عظیم سقراط تھا۔

بلوچستان کے سنگلاخ پہاڑ ہیں اور پسنی کے نیلگوں سمندر اور ریگزار ہیں ۔ ان گلیوں اور بازاروں میں ہر صبح ایک بوڑھا نمودار ہوتا ہے ۔ وقت کے حکمرانوں پر گالیوں کی بوچھاڑ کر کے خود کو بھی برا بھلا کہتا ہے۔

مگر نوجوانوں کے ہجوم اس کے اردگرد ہے سب اسے “ابا” اور “بابا” کہتے ہیں ۔ اور یہ بوڑھا نوجوانوں سے پیار کرتا ہے۔ بدنما موقع پرست اس بوڑھے کو پاگل کہتے ہیں نام نہاد دانشور اور ادیب اس بوڑھے کو گالیاں دیتے ہیں ۔ مگر یہ بوڑھا خود کی نفی کررہا ہے یہ ملامت تو تصوف کی نشانی ہے ۔ دوسری طرف یہ اپنے گلزمین اور مادر وطن کی عشق میں مبتلا ہیں اور اس عشق میں اس نے اپنی جوانی لٹا دی ہے اور اپنے جگر گوشے اپنے بوڑھاپے کے سہارے کمبر جان کو بھی قربان کردیا ہے۔

یہاں تو ہمیں روسو یاد آرہے ہیں جنہوں نے یورپ کو نیو سوشل کونٹریکٹ دیا فاقہ مست روسو جس کے بچے یتیم خانے میں ہیں اور خود سڑکوں پر رات گزارتا رہا ۔ یہ ہے خود کی نفی کرنا ۔ اب آئیے دیکھیں پسنی کے اس بوڑھے کو خود کی نفی کرکے ملامت اور مزاحمت کی علامت ہے ملامت صوفیانہ وصف ہے اور مزاحمت اس کے قومی مزاج میں ہے یہ ہے ہمارے بوڑھے فلسفی ،شاعر ،صوفی اور قومی آزادی کے عظیم شاعر اور مزاحمت کار مبارک قاضی ہے۔

1980 کی دھائی میں اپنے نوجوانی کے زمانے میں مبارک قاضی بلوچ پیپلز لبریشن فرنٹ کے ممبر تھے اور اسی دھائی میں پاکستانی جھنڈا جلانے کا الزام بھی لگا تھا جس کی وجہ سے ریاست نے مبارک قاضی کے وارنٹ جاری کر دئیے تھے۔ مبارک قاضی اور لالا منیر دونوں بیک وقت انڈر گراؤنڈ چلے گئے تھے شنید میں آیا ہے کہ ان دونوں نے اپنے روپوشی کا زمانہ افغانستان میں گزارا۔ جہاں بلوچ پیپلز لبریشن فرنٹ کے گوریلے بھی موجود تھے ۔ 1980 کی دھائی پر آشوب اور نظریاتی کارکنوں سے لیس زمانہ تھا ۔ مبارک قاضی قومی آزادی کے جدوجہد کے عظیم دانشور تھے مبارک قاضی اپنی موت تک قومی آزادی کی تحریک سے وابسطہ رہے ۔ تاریخ اور بلوچ قوم اس عظیم ہستی کو خراج عقیدت پیش کرتی رہے گی ۔ مبارک قاضی کا خلا کبھی پر نہیں ہوگا کیونکہ ایسی عظیم ہستیاں قوموں میں صدیوں میں پیدا ہوتی ہیں ۔ قومی آزادی کے عظیم شاعر کو لاکھوں سلام ۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔