ضلع آواران کے تحصیل مشکے کے جھونپڑی نما اسکول کے طلباء شدید گرمی میں سخت مشکلات کے شکار ہیں۔
علاقائی نوجوان نے اسکول کی تصاویر سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر شئیر کرتے ہوئے کہا ہے کہ پچھلے دس سال سے عمارت سے محروم یہ گورنمنٹ پرائمری اسکول بھنڈکی تحصیل مشکے ضلع آواران کے طلباء کی حالتِ زار ہے۔
اسکول کے طلبا سال کے بارہ مہینوں اور چاروں موسموں میں اس جھگی نما جونپڑی میں پڑھنے پر مجبور ہیں۔
انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ ضلع آواران میں فوراً تعلیمی ایمرجنسی نافذ کرنی چاہیے۔ یہاں ایک طرف سینکڑوں اسکول بند ہے تو دوسری طرف کئی اسکول بغیر عمارت کے جونپڑیوں پر مشتمل ہیں۔اور سینکڑوں اساتذہ غیر حاضر ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق بلوچستان میں پانچ ہزار سے زائد پرائمری سکول ایسے ہیں جو صرف ایک کمرے اور ایک استاد پر مشتمل ہیں۔
جبکہ بیشتر اضلاع کے دیہی علاقوں میں پڑھنے والے طلباء کو ایک کمرہ تک میسر نہیں جو کھلے سامان تلے پڑھنے پر مجبور ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں تعلیمی پسماندگی کے خاتمے کے لیے زیادہ سے زیادہ وسائل کی فراہمی کی ضرورت ہے لیکن گذشتہ مالی سالوں کے ترقیاتی بجٹ کے مقابلے میں بلوچستان کے رواں مالی سال کے بجٹ میں کی کمی کی گئی تھی ۔
بلوچستان میں متحرک طلباء تنظیم بساک کے لٹریسی کمپئین کے اعداد و شمار کے تحت ایک حالیہ سروے کے مطابق بلوچستان کی پچاس فیصد سےزائدعوام غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کررہی ہے جس کی وجہ سے بیشتر افراد اپنے بچوں کو بنیادی تعلیم دینے سے قاصر ہیں۔
اس سروے کے مطابق بلوچستان بھر میں 2.3 ملین بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ چتھیس فیصد( 36 ٪) اسکول پانی کی سہولت سے محروم ہیں، چھپن فیصد (56٪) اسکولز میں بجلی کی سہولت نہیں اور پچیس فیصد (25٪)اسکولز کھنڈرات کے منظر پیش کررہے ہیں، ایک لاکھ پچاس ہزار اساتذہ کا ریکارڈز موجود نہیں اور تین لاکھ سے زائد جعلی طلباء کے ریجسٹریشن موجود ہیں۔
اس کے علاوہ ملک کے دیگر بلوچ علاقوں میں مثلا ڈیرہ غازیخان،راجن پور،جیکب آباد، کراچی کے بلوچ اکثریت علاقوں اور اسکے علاوہ بلوچستان کے مختلف بلوچ علاقوں میں تعلیم زبوں حالی کا شکار ہیں حالانکہ ان علاقوں کو بنیادی تعلیمی سہولیات کے حوالے سے محروم رکھا گیا ہے جس کی وجہ سے بلوچ قوم میں شرح خواندگی نہایت ہی کم ہے۔گورنمنٹ اور بلوچستان حکومت کی طرف سے ان علاقوں کو بالکل نظر انداز کیا گیاہے۔اگرچہ ،پرائمری اسکولز سے لے کرکالجز تک تعلیمی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ بلوچ قوم کی تعلیمی شرح کو معلوم کرنے اور بلوچ قوم کی شرح خواندگی کو بڑھانے کے لیے بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کی جانب سے ” بلوچ لٹریسی کمپئین” کے نام سے ایک منظم مہم شروع کی گئی ہے۔