تُمہارا دوست کون ہے اور دشمن کون ہے”؟ قومی آزادی کی جنگ میں اِس نُقطے کی زیادہ اہمیت ہوتی ہے۔ دنیا کے تمام انقلابی قوتوں نے “مُشترکہ دشمن” کے خلاف “مُتحدہ محاذ” یا “مُتحدہ اتحاد” تشکیل دے کر اپنی مُزاحمتی جنگ جاری رکھی اور کامیابی حاصل کی ہے۔ ان خیالات کا اظہار ایس آر اے کے سربراہ سید اصغر شاہ نے اپنے ایک تفصیلی انٹرویو میں کہا ہے۔
ایس آر اے سربراہ اصغر شاہ کا کہنا ہے کہ ایس آر اے نے بھی ایک ذمہ دار تنظيم کی حیثیت سے اِس نُقطے کو آگے رکھتے ہوئے 26 جولائی 2020ع میں بلوچ آزادی پسند تنظیموں بی ایل اے ، بی ایل ایف ، بی آر اے اور بی آر جی کے اتحاد “براس” کے ساتھ اتحاد کیا۔
ان کا یہ انٹرویو سندھی مسلح آزادی پسند تنظیم کیجانب سے شائع ہونے والے رسالہ “مزاحمت” میں شائع ہوا ہے۔ ایس آر اے کا ترجمان رسالہ “مزاحمت” مختلف تحریروں سمیت ایس آر اے کے کارروائیوں کی رپورٹ پر مشتمل ہے۔
سید اصغر شاہ نے کہاکہ یہ اتحاد یقیناً جتنا ہم دونوں قوموں کے لئے اُتساہ اور خوشی کا سبب بنا ہے وہاں ہمارے “مُشترکہ دشمن پنجاب” کے لیے بھی پریشانی اور تکلیف کا باعث بنا ہے۔ اِس کے علاوہ پوری دنیا میں بھی ایک اچھا پیغام اور تاثر گیا ہے۔ویسے تو جغرافیائی ساتھ ہونے کے سبب ہم سندھیوں کا صدیوں سے بلوچوں کے ساتھ تاریخی ، سیاسی ، تہذیبی اور ثقافتی رشتہ ناتہ رہا ہے لیکن موجودہ وقت میں “قومی آزادی” ایک ایسا مُشترکہ نصب العین ہے جو نہ صرف دونوں برادر اقوام کو آپس میں اور بھی یکجا کرے گا بلکہ اِس خطے کے اندر اور عالمی سطح پر بھی اُس کے دیرپا اثرات اور نتائج برآمد ہونگے۔
اپنے انٹریو میں انہوں کہاکہ سندھ اور بلوچستان اپنی جغرافیائی ، جیو پولیٹیکل لوکیشن اور بدین سے لیکر گوادر تک اپنی وسيع و عریض سمندری پٹی کی وجہ سے شروع سے ہی ظالم جابر وحشی اور قبضہ گیر قوموں کی لالچ ، حوس اور حملوں کا شکار ہوتے رہے ہیں آج وہی کردار اپنی پوری فوجی طاقت ، دہشت اور وحشت کے ساتھ پنجاب سامراج ادا کر رہا ہے۔ جو چائنا کے ساتھ مُشترکہ سی پیک منصوبے کے نام پر ہم دونوں مظلوم اقوام کی جغرافیہ ، سمندری پٹی اور جزائر ، توانائی کے وسائل اور ذرائع اور ذراعت پر ہمیشہ اور مُستقبل قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ بحیثیت ایک ذمہ دار تنظيم اور اتحاد کے ہم پوری صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں اور حکمت عملی بھی موجود ہے۔ سامراجی اور قبضہ گیر طاقتیں ہمیشہ بندوق اور طاقت کی زبان سمجھتے ہیں۔ ہماری مُشترکہ کوشش ہے کہ اپنی پوری طاقت اور قوت کو یکجا کر کے ایک تو اپنے اپنے علاقوں میں کارروائیوں کو تیز کریں اور دوسرا یہ کہ مُشترکہ حکمت عملی تشکیل دے کر مُشترکہ اہداف کو نشانہ بنائیں۔ تاکہ سامراجی قبضے کو ختم کر سکیں اور اپنے تاریخی وطنوں کو آزاد کر سکیں۔
انکا مزید کہنا تھا کہ گزشتہ پندرہ برسوں سے عالمی سیاست کی دو اہم ترین طاقتوں امریکہ اور چین کے درمیان ایک نئی سرد جنگ جاری ہے۔ جس جنگ نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ دنیا کے کئی ممالک میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ چین امریکہ کے نیو ورلڈ آرڈر کے مقابلے میں سیاسی ، اقتصادی ، تکنیکی ، فوجی اور سفارتی بنیادوں پر اپنا متبادل ورلڈ آرڈر دے کر دنیا کو اپنے ماتحت چلانے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اس صورتحال کے پیش نظر جہاں ایک طرف امریکہ انڈو پیسفک ریجن میں QUAD اور AUKUS جیسے اتحاد بنا کر چین کے راستے روکنے کی کوشش کر رہا ہے وہیں دوسری طرف چین ، روس اور شمالی کوریا کے ساتھ نئے اتحاد بنا کر آگے بڑھ رہا ہے۔ بلکہ حال ہی میں چین دو تلخ حریف ممالک ایران اور سعودی عرب کو اکٹھا کر کے مشرق وسطی میں ایک نئے اتحاد کی بنیاد رکھنے کی کوششیں کر رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ دنیا تیزی سے ایک بار پھر بلاک سیاست میں داخل ہونے کی طرف بڑھ رہی ہے۔
ایس آر اے کے سربراہ نے کہاکہ ایشیا کا خطہ جو دنیا میں اپنی ایک خاص اہمیت رکھتا آيا ہے۔ جہاں چین ، بھارت اور جاپان جیسے طاقتور ممالک موجود ہیں۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ جنوبی ایشیا کا یہ خطہ اور بحیرہ جنوبی چین ميدان جنگ بننے جا رہے ہیں۔ کیونکہ امریکہ کی جانب سے یوکرین کی جنگ میں روس کو انگیج کرنے اور مشرق وسطی کے عرب ممالک کو اپنا اتحادی یا غیر جانبدار بنانے کے بعد امریکہ کی ساری توجہ جنوبی ایشیا کے اس خطے پر ہے۔
انہوں نے مزید کہاکہ پاکستان کو ایک طرف اپنی ناکام داخلی اور خارجی پالیسیوں کی وجہ سے سیکورٹی کے سنگین مسائل کا سامنا ہے تو دوسری طرف سیاسی ، معاشی اور عدالتی بحرانوں نے اس ملک کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔ لیکن اس سب کے باوجود پاکستانی ریاست اپنی دوغلی پالیسیوں اور مذہبی انتہا پسندانہ حرکتوں اور سازشوں سے باز نہیں آتی۔ افغانستان ہو یا ایران ، پاکستان بالواسطہ یا بلاواسطہ اپنے ایجنٹوں کے ذریعے مداخلت ، بغاوت اور فتنہ بازی کو جاری رکھتا آيا ہے اور کشمیر سے دہلی تک فتح کرنے کے احمقانہ خواب دیکھتا رہتا ہے۔ یہ پاکستانی ریاست کی اپنی ناکام اور ناقص پالیسیاں ہی ہیں جن کی وجہ سے پورا ملک بالخصوص سندھ اور بلوچستان جل رہا ہے۔ سندھ میں بڑے پیمانے پر منظم منصوبہ بندی کے تحت قبضے اور جبر کو تيز کر دیا گیا ہے اور آزادی پسند نوجوانوں کی جبری گمشدگیوں اور شہادتوں کا سلسلہ تیز کر دیا گیا ہے۔