مستونگ میں ڈھلتی شام کو دیکھو ۔ محمد خان داؤد

122

مستونگ میں ڈھلتی شام کو دیکھو
تحریر: محمد خان داؤد
دی بلوچستان پوسٹ

یہ نہ دیکھو کہ مستونگ میں کس نے کس لیے پنڈال سجایا اور پھر اس پنڈال کا کیا حشر ہوا۔پر یہ دیکھو کہ وہ جلا ہوا پنڈال اب بھی باقی ہے۔سب جل چکا ہے۔سب جل گیا ہے۔سب جلادیا گیا ہے۔اور وہ جلا ہوا پنڈال اب بھی باقی ہے
یہ نہ دیکھو کہ اس جلے ہوئے پنڈال کے آس پاس کون کون موجود ہے۔پر یہ دیکھو کہ اس جلے ہوئے پنڈال کو کورڈن آف کیا ہوا ہے۔وہ جلا ہوا پنڈال اب بھی وہاں موجود ہے۔
کچھ پھٹے ہوئے کپڑے اور کئی جوتے ایک ساتھ پڑے ہوئے ہیں۔اور بھجتی جلتی آگ میں اب بھی
جل رہے ہیں
بجھ رہے ہیں
جلتے جلتے بجھ رہے ہیں
اور بھجتے بھجتے جل پڑتے ہیں
وہ عمامے جو عاشقوں کے تھے۔اب بکھرے پڑے ہوئے ہیں۔جل رہے ہیں سوختہ دلوں کی طرح!
یہ نہ دیکھو کہ وہ سب دامن سلامت اپنے گھروں کو پونچھے جو اس جلسے میں جئے جئے کے نعرے لگانے نہیں گئے تھے۔پر وہ تو یہ دیکھنے گئے تھے کہ عاشقوں کے دل کو قرار کس بات پر آتا ہے?
پر یہ دیکھو کہ کتنے دامن سلامت رہے اور کتنے دامنوں کو آگ نے اپنی لپیٹ میں لیا اور وہ جل گئے ایسے جیسے جیبوں میں موجود وہ کاغذ جل جاتے ہیں جب کپڑوں کو آگ اپنی لپیٹ میں لیتی ہے اور کچھ نہیں بچتا۔
یہ نہ دیکھو کہ اس شام مستونگ میں کون کون اس جلسے کو دیکھنے گیا تھا جو جلسہ ماتم میں تبدیل ہو گیا۔پر یہ دیکھو کہ اس جلسے سے کون کون واپس اپنے گھروں کو لوٹا!
اور اپنے بچ جانے کو حیرت زدہ ہو کر سب کو یہ بتاتا ہے کہ میں بس ایک منٹ ہوا تھا کہ وہاں سے ہٹا تھا کہ مجھے کسی کا فون آگیا تھا شور بہت ہونے کی وجہ سے مجھے آواز سمجھ نہیں آ رہی تھی۔میں بس ہٹا کہ دھماکہ ہوگیا۔اس کی روتی آنکھوں میں چمکتی آنکھوں میں دیکھو۔
یہ مت دیکھو کہ اب جلتے مستونگ کو سب میڈیائی ادارے دکھا رہے ہیں۔پر یہ دیکھو کہ اس ٹرجیڈی سے پہلے ان میں کس میڈیائی ادارے نے کتنی بار اس مستونگ کو دیکھایا جس مستونگ کو وہ لوگ بھی اب جانتے ہیں جب مستونگ جل گیا۔اور زندہ مستونگ میں نئی دو 60 قبریں بن چکیں
یہ مت دیکھو کہ اب مستونگ کے جل جانے کے بعد بلوچستان کی قسمت چمک اٹھی ہے۔اور اب کارپوریٹ میڈیا ئی ادارے اپنے ایڈوٹوریل پالیسی میں بلوچستان کو اپنے پیروٹی میں رکھیں گے۔اور ہر چھپتے اخبار اور ہر گھنٹے نشر ہونے والے بلوٹین میں بلوچستان بلوچستان سننے میں آئے گا ۔نہیں ایسا نہیں ہوگا۔اس بات کا تو اعتراف صاحب اقتدار لوگ بھی کر چکے کہ جتنا بڑا نقصان ہوا میڈیا اتنا نہیں دکھارہا۔میڈیا کو تو بحریہ ٹاؤن کے ان اشہتاروں کو دکھا رہا ہے جن کو ملک کی سپریم کورٹ کبھی روکتا ہے۔کبھی دکھانے کی اجازت دیتا ہے۔
تو کون دکھائے گا کہ مستونگ جل رہا ہے؟
کون دکھائے کا ان دامنوں کو جو دامن دامنِ یار کے تھے۔پر ایسے جلے جیسے دامن یار جلتے ہیں
پھر کون دکھائے گا وہ پنڈال جو صبح سے تیار ہو رہا تھا۔جس میں خوشی کے شادمانے بج رہے تھے۔اور جاتے سورج کے ساتھ ڈھلتے سورج کے ساتھ وہ ایسا پھاسی گھاٹ بنا کے جس میں بیک وقت ساٹھ نحتے لوگوں کو پھاسی گھاٹ پر چڑھا دیا گیا۔یہ کیسا پھاسی گھاٹ تھا جس میں گردنیں کھینچی نہیں گئیں پر ان کے ساتھ ایسا ہوا جس کے لیے غالب نے کہا تھا کہ
،،جلا ہے جسم تو دل بھی جل گیا ہوگا
کریدتے کیا ہو۔جستجو کیا ہے؟،،
پھر کون دکھاتا ان جوتوں کو جو اپنے پیروں میں بڑی شان سے چل کر آئے تھے۔پھر جوتے اسی پنڈال میں نظر آئے پر وہ پیر نہیں تھے جو ان جوتوں کے حال یار تھے۔ان کے ساتھ چل کر آئے تھے۔
پھر وہاں اس پنڈال میں وہ کپڑے بھی موجود رہے۔جن کپڑوں میں وہ جسم موجود تھے جن جسموں کے شانوں پر بہت بڑے پیارے بال تھے۔جن کے کاندھوں پر رومال تھے جن رومالوں سے وہ اپنا چھیرے پر آئے پسینہ پونچھتے تھے۔پھر وہ رومال تو وہی رہے۔پر وہ چھرہ وہاں نہیں تھا۔
وہ مستونگ کا پنڈال جہاں سبز پرچموں اور سبز عماموں کی بہار تھی ۔وہی مستونگ کا پنڈال جل جانے کے بعد بس ان انسانی جسموں کی باقیات سے بھرا ہوا تھا جن باقیات کے اس دھماکے سے پہلے نام تھے۔
کسی ولی داد۔کسی کا نورل۔کسی کا حمل خان۔اور پھر وہ انسانی اجسام آپس میں ایسے گھل مل گئے جیسے دریا کا پہلا قطرہ دریا کے آخری قطرے سے مل جاتا ہے۔
مستونگ میں پہلے بھی ماؤں کے چھیروں پر خوشی بہت ہی کم ہوتی تھی۔پر اس دھماکے نے ان ماؤں کے چھیروں کو ایک ایسی عزترابی کیفیت میں مبتلا کر دیا ہے کہ ان کے دلوں میں وہ دھماکہ اب بھی گونج رہا ہے جس دھماکے نے پاکستان نہیں ۔بلوچستان نہیں بھی تو مستونگ کے ماؤں کو جھنم کے در پر ضرور لا کھڑا کیا ہے جہاں بس ماتم ہے اور کچھ نہیں۔
مستونگ میں بہت سے سورج طلوع ہوتے ہیں۔اور اب بھی ہوتے رہیں گے۔
مستونگ میں بہت سے سورج ڈھلتے ہیں۔غروب ہوتے ہیں۔اور بھی ڈھل جائیں گے۔اور ڈھلتے رہیں گے۔
پر اس سورج کو ڈھلتا کون دیکھے گا جس کے ساتھ ساٹھ انسان ایسے ڈھل گئے جیسے وہ کوئی شبنم کا کوئی قطرہ تھے۔چمکے۔ابھرے اور پھر ڈھل گئے۔
ان کے اداس لاشے اب بھی ان قبروں میں منتظر ہیں جو قبریں بہت عجلت میں تیار ہوئیں۔ان میں اہلیان مستونگ کی باقیات کو ڈالا گیا۔اور پھر وہ لوگ آگئے کوئٹہ جہاں بلاول بھٹو بھی آتا ہے۔شہباز شریف بھی آتا ہے تو وہ عمران خان بھی آتا ہے جسے اب یہ شکایت ہے کہ ”اس کے ساتھ انصاف نہیں ہوا!“
تو اہلیان مستونگ کسے کہیں کہ وہ سورج ڈھل ہی نہیں رہا
جو اس شام دھماکے کے بعد ایسے رک گیا جیسے کئی انسانوں کی سانسیں رک گئیں
ماؤں کے گھروں میں دل رک گئے
باپوں کے آنسو رک گئے۔اور وہ اپنے بچوں کو دوبارہ مستونگ کی سنگلاخ دھرتی میں ایسے دفن کرتے رہے جیسے سندھ میں ہاری سنگلاخ دھرتی میں بیج بوتے ہیں
کیا وہ مستونگ کے بوڑھے باپ اپنے بچوں کو بیجوں کی ماند دوبارہ مٹی میں بو رہے ہیں جس سے سرخ گلاب کھل اٹھیں گے؟
یا وہ بوڑھے اپنے ہی ہاتھوں سے اپنی زندگی اور اپنے خواب اس دھرتی میں دفن کر رہے ہیں جس دھرتی کو اس دھماکے سے پہلے کوئی نہیں جانتا تھا اب روائیتی میڈیائی ہی کیا۔سوشل میڈیا ہی کیا پر اب گوگل میں جا کر مستونگ لکھتے ہیں تو بوڑھے باپ سرکاری اسپتالوں میں ان لاشوں کو ایسے وصول کرتے دکھائی دیتے ہیں جیسے کراچی میں بوڑھے بینکوں کے باہر پینشن وصول کرتے ہیں۔اور سندھ میں عورتیں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے دو ہزار۔
سردارن بلوچستان ،مشیران بلوچستان سب بلوچستان میں موجود ہیں
پر مستونگ کی ڈھلتی شام کے اس سورج کو کون دیکھے گا
جو سورج مستونگ کے آسمان پر ایسے رک گیا ہے
جیسے سندھ میں کاری کی ہوئی لڑکی کے ماتھے پر بارود کا سوراخ!
خدارا!مستونگ کی ڈھلتی شام کو دیکھو
جو بہت ویران ہے
جو بہت اکیلی ہے
جو بہت اداس ہے
خدارا!مستونگ کی ڈھلتی شام کو دیکھو
مستونگ کی ڈھلتی شام کو دیکھو!


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔