بلوچی زبان کے دور حاضر کے معروف شاعر مبارک قاضی اپنے چاہنے والوں کو سوگوار چھوڑ کر خالق حقیقی سے جاملے، ان کی نماز جنازہ ان کے آبائی گاﺅں پسنی میں ادا کردی گئی۔
نمازہ جنازہ میں نیشنل پارٹی کے رہنما ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ، حق دو تحریک کے حسین واڈیلا سمیت لوگوں کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔
مبارک قاضی بلوچ 24 دسمبر 1956ء کو پسنی ضلع گوادر میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام کہدہ امان اللہ تھا، کہدہ مکران میں بلوچ قوم کی جانی مانی شاخ ہے جو پسنی، گوادر اور زیادہ تر کیچ میں آباد ہیں۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم مقامی اسکول سے حاصل کی، 1976ءمیں مزید تعلیم کیلئے کراچی چلے گئے اور سندھ مسلم لاء کالج میں داخلہ لیا۔ کچھ برسوں کے بعد انہوں نے دوبارہ کراچی کا رخ کیا اور پرائیویٹ امتحانات میں انٹرمیڈیٹ پاس کیا۔ قاضی نے بی اے کیا، 1983ءمیں اردو آرٹس کالج سے ڈگری حاصل کی۔ 1986ءمیں بلوچستان یونیورسٹی کوئٹہ سے بین الاقوامی تعلقات (I.R) میں ایم اے کیا اور پھر قاضی اپنے آبائی شہر واپس آ گئے اور فش ہاربر پسنی میں بطور ڈائریکٹر خدمات انجام دیئے، قاضی کا شمار بلوچستان کی مشہور اور اہم شخصیات میں ہوتا ہے، وہ اپنی قوم دوستی اور ادبی سرگرمیوں کیلئے جانے جاتے ہیں ، انہیں آزادانہ شاعری کی وجہ سے قید کی سزا بھی بھگتنی پڑی، جس میں انہوں نے بلوچ قوم کے حق میں حکومت کیخلاف شاعری کی تھی۔
انہوں نے ہمیشہ حکومت کی ناکامی کیخلاف لکھا اور بلوچ عوام کے حقوق کا مطالبہ کیا۔ ان کی مقبولیت کی وجہ اچھی شاعری تو تھی ہی لیکن بلوچ جہد کے حوالے سے انہوں نے مزاحمت کا جو راستہ چنا وہ انہیں مقبولیت کی معراج پر لے گیا۔
دریں اثنا بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی (بساک) نے اپنے بیان کہا کہ بلوچ زبان کے شاعر مبارک قاضی کی رحلت قومی سانحہ ہے، تنظیم تین روزہ سوگ کا اعلان کرتی ہے۔
مرکزی ترجمان نے اپنے جاری بیان میں مبارک قاضی کی موت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ معروف شاعر کی رحلت بلوچ قوم کے لیے ناقابل تلافی نقصان ہے۔ مبارک قاضی نہ صرف بلوچی زبان کے نامور شاعر اور ادیب تھے بلکہ بلوچ قوم کے ایک مزاحمتی باب تھے جو کہ اپنے کردار اور فن کے ذریعے مزاحمت کررہے تھے۔ مبارک قاضی اس زمانے کے ان اہم کرداروں میں سے ایک ہیں جو ظلم کے سامنے پہاڑ کی طرح مضبوط کھڑے رہے اور طاقتوروں کیخلاف ایک انقلابی طاقت کے طور پر لڑتے رہے۔ وہ خیر بخش مری اور صباءدشتیاری کے فلسفے کے مسافر تھے جو اپنا فرض بخوبی سرانجام دیکر چلے گئے۔ انہوں نے اپنی شاعری سے بلوچ قوم کے احساسات اور بلوچستان کے حالات کو الفاظ دے کر ان کی حقیقی نمائندگی کی۔
ترجمان نے مزید کہا کہ مبارک قاضی ایک شاعر اور ادبی شخصیت ہونے کے ساتھ ساتھ سیاسی کردار بھی رہے جو کہ بلوچ سیاسی جدوجہد میں اول صفوں میں شمار ہوتے ہیں۔ آپ نے اس سیاسی سفر میں ہر طرح کا ظلم سہا اور جبر کے سامنے دلیری سے ڈٹے رہے۔ ان میں جیل اور کال کوٹھڑیوں کی وہ داستان بھی شامل ہیں جب انہیں سیاسی جدوجہد اور مزاحمتی شاعری پر پابند سلاسل کیا گیا اور مختلف ہتھکنڈوں سے انہیں ڈرایا دھمکایا گیا مگر اس عہد ساز شخصیت کے سامنے یہ سارے ظلم و جبر کچھ بھی نہیں تھے اور نہ ہی ان ہتھکنڈوں سے وہ مبارک قاضی کو پیچھے ہٹا سکے بلکہ وہ اپنی جدوجہد میں مگن بلوچستان کی کہانی کو الفاظ دیتے رہے۔ آپ کبھی اپنی شاعری کے فن سے عرش کو جھنجھوڑتے رہے تو کبھی بلوچ قومی فکر کی گلی کوچوں میں ترجمانی کرتے رہے۔ مبارک قاضی اپنے فن سے انصاف کرتے ہوئے حقیقی طور پر بلوچ قوم کے لیے اپنا کردار نبھا کر چلے گئے، آپ نے بلوچستان کی تاریخ میں خود کو امر کردیا جو تاابد بلوچ مزاحمتی تاریخ میں زندہ رہے گا۔ ترجمان نے آخر میں کہا کہ مبارک قاضی کی رحلت پر پوری قوم سوگ میں ہے، مبارک قاضی کی رحلت پر تنظیم تین روزہ سوگ کا اعلان کرتی ہے اور تین روز تک تنظیم کی تمام سرگرمیاں معطل رہیں گی۔