ماما قدیر کا نام ای سی ایل میں ڈالنا عدالتی توہین اور ملکی قانون کی خلاف ورزی ہے۔ نصراللہ بلوچ

137

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چیئرمین نصراللہ بلوچ نے کہا کہ ‏دو مرتبہ عدالت کے حکم پر ‎تنظیم کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ کا نام ای سی ایل سے نکالا گیا لیکن اب دوبارہ ماما قدیر کا نام ای سی ایل لسٹ میں شامل کیا گیا ہے حکومت کا یہ اقدام عدالت کے حکم کی توہین و ملکی قوانین کی خلاف ورزی ہے اور پرامن آوازوں پر قدغن لگانے کے مترادف ہے۔

انہوں نے کہا کہ ماما قدیر تنظیم کے پلیٹ فارم سے پرامن اور آئینی طریقے سے لاپتہ افراد کی بازیابی کو یقینی بنانے اور جبری گمشدگیوں کے خلاف جد و جہد کرتے آرہے ہیں اور لاپتہ افراد کی بازیابی کے حوالے سے قائم تنظیم کے احتجاجی کیمپ انکی قیادت میں 14 سالوں سے جاری ہے وی بی ایم پی ملکی قوانین کے تحت لاپتہ افراد کے مسئلے کے حوالے سے جد و جہد کررہی ہے تنظیم کا مطالبہ ہے کہ لاپتہ افراد کا مسئلہ ملکی کے تحت حل کیا جائے جن پر الزام ہے انہیں عدالت میں پیش کیا جائےجو بےقصور ہے انہیں رہا کیا جائے اور جو لاپتہ افراد اس دنیا میں نہیں ہے انکے حوالے سے انکے اہلخانہ کو بتایا جائے لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ کئی سالوں کی پرامن اور آئینی جد و جہد کے باوجود بھی کسی بھی سطح پر لاپتہ افراد مسئلے کے حل کے حوالے سے سنجیدہ اقدامات اٹھائے نہیں جارہے ہیں بلکہ لاپتہ افراد کے حوالے سے کام کرنے والے پرامن آوازوں کو خاموش کرانے کے لیے مختلف طریقے استعمال کیے جارہے ہیں جو یقینا ایک غیر جمہوری عمل ہے ریاست اور ریاستی اداروں کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ماورائے آئین اور غیر جمہوری اقدامات کی وجہ سے اہل بلوچستان عدم تحفظ کے شکار ہونے کے ساتھ انکے احساس محرومی میں اضافہ ہورہا ہے جسکی وجہ سے حالات بدن خراب ہوتے جارہے ہیں جو ملک کی بقا کے لیے نیک شکون نہیں ہے اسلیے ریاست اور ریاستی اداروں کو سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور پرامن آوازوں کو بزور طاقت خاموش کرانے کی اپنی پالیسی کو طرق کرنا چاہیے اور جائز حقوق کے لیے اٹھنے والے آوازوں کی حوصلہ افزائی کرکے انکے حل کے حوالے سے ملکی قوانین کے تحت عملی اقدامات اٹھانے چاہیے۔