لیبیا کے ساحلی شہر درنہ میں سونامی کی طرح کے سیلاب کی تباہ کاریوں کے ایک ہفتے بعد، ملبے تلے سے اور سمندر سے لاشیں نکالنے کا سلسلہ جاری ہے۔ اندازوں کے مطابق اس سیلاب میں ہزاروں افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ غمزدہ متاثرین کی مدد کے لیے اتوار کو بین الاقوامی امدادی کوششوں میں تیزی دیکھی گئی۔ چہرے کے ماسک اور حفاظتی لباس پہنے ہوئے سرچ اینڈ ریسکیو ٹیموں کے کارکنان زندہ بچ جانے والوں کی تلاش جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ ابھی بھی تباہ شدہ عمارتوں، کچلی ہوئی کاروں اور اکھڑے ہوئے درختوں کی مٹی سے ڈھکی ہوئی بنجر زمین میں پھنسے ہوئے انسانوں کو نکالنے کی امید میں سرگرداں ہیں۔
متعدی بیماریوں کے پھیلاؤ کے خطرات
اقوام متحدہ کی ایجنسیوں نے خبردار کیا ہے کہ صدمے کے شکار رہائشیوں میں ہیضہ، اسہال، پانی کی کمی اور غذائی قلت کے خطرات بہت بڑھ گئے ہیں۔ ان متاثرین کو صاف پانی، خوراک، رہائش اور بنیادی سامان کی اشد ضرورت ہے۔ تنہا درنہ شہر میں 30 ہزار سے زائد باشندے بے گھر ہو گئے ہیں۔ اس شہر کے ایک رہائشی محمد الدوالی نے کہا کہ اس شہر میں ہر ایک خاندان سیلاب سے متاثر ہوا ہے۔ سکیورٹی فورس کے ایک رکن سیر محمد سیر نے ایک تین ماہ کی بچی کے سانحے کا ذکر کرتے ہوئے کہا، ”اس کا پورا خاندان مر گیا، وہ واحد بچی ہے۔‘‘
دریں اثناء فرانس، ایران، مالٹا، روس، تیونس، ترکی اور متحدہ عرب امارات سے ایمرجنسی رسپانس ٹیمیں اور امدادی سامان لیبیا پہنچ چُکا ہے جبکہ متعدد دیگر یورپی اور عرب ممالک سے بھی امدادی سامان اور ٹیمیں روانہ ہو چُکی ہیں۔
امدادی کاموں میں رکاوٹیں
لیبیا کی سیاسی تقسیم کی وجہ سے امدادی کوششوں میں رکاوٹ پیدا ہو رہی ہے۔ اس شمالی افریقی عرب ریاست میں سن 2011 میں نیٹو کی حمایت یافتہ بغاوت کے نتیجے میں انتہائی طویل عرصے تک اقتدار میں رہنے والے آمر معمر قذافی کا تختہ الٹنے اور انہیں قتل کرنے کے بعد جنگ سے یہ ملک انتشار اور افراتفری سے دوچار ہے۔ تیل کی دولت سے مالا مال شمالی افریقی ملک اب دو حریف حکومتوں کے درمیان بٹا ہوا ہے، دارالحکومت طرابلس میں اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ انتظامیہ، اور دوسری آفت زدہ مشرقی حصے پر کنٹرول رکھتی ہے۔