عورت اور آرٹ
تحریر: شاکر منظور
دی بلوچستان پوسٹ
عورت جینیاتی طور پر آرٹسٹ ہے۔ عورت میں فطری طور پر وہ تخلیقی صلاحیتیں موجود ہیں جو کہ ایک فنکار ہونے کے لیے ضروری ہیں۔ عورت اپنے خیالات، جذبات، نظریات اور تصورات کو پیش کرنے کے لیے ہمیشہ کوششیں کرتے رہے ہیں۔ جہاں انہیں کبھی کامیابی ملی ہو کھبی انکو سماجی رکاوٹ کا سامنا کرنا پڑی، لیکن وہ اپنی اظہار رائےکی حق سے کبھی دست بردار نہیں ہوئی۔
پدرسری سماج میں عورت کی جذبات کی اظہار کو گناہ کبیرا سمجھا جاتا تھا اور ہے، کیونکہ مرد ہمیشہ سے یہ چاہتے تھے شاعری، ادب، علم اور فن میں انکی حکمرانی رہے اور عورت بطور غلام انکے ماتحت رہیں۔ عورت کو فنی لحاظ سے غلام رکھنے کے لیے پدرسری نظام نے مختلف نفسیاتی حربے استعمال کرکہ عورت کو زیر کرنےکی غیر محسوسانہ کوششیں کی ہیں۔ اور ان کوششوں میں رجعت پسند مرد کافی حد تک کامیاب ہوگئے ہیں، عورت کو لاشعوری طور پر یہ یقین ہوگی کہ وہ مرد کے مقابلہ میں آرٹ اور ادب میں کمتر ہیں، کیونکہ ان میں وہ دماغی صلاحیت نہیں ہے جو کہ مرد حضرات کے پاس ہے لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔
وقت کے روانی کے ساتھ ساتھ عورت میں یہ احساس و اعتماد پیدا ہوگئی کہ آرٹ تخلیق کرنا صرف مرد کا ملکیت یا مردانگی نہیں بلکہ یہ ایک فطری عمل ہے اس کا جنس و جسم سے کوئی سروکار نہیں بلکہ پدرسری نظام نے اپنی بالادستی قائم کرنے کے لیے ایسے من گھڑت نفسیاتی ہتھکنڈے کی استعمال کئے ہیں کہ عورت کو قابو و استحصال کرنا آسان ہو۔
تب سے لیکر آج تک عورت نے نہ صرف، شاعری، میوزک، ڈانس، سنگیت، ناول نگاری، نثر، پینٹنگ، اور پورٹریٹ تخلیق کررہی ہیں بلکہ اپنی آرٹسٹک صلاحیتوں کے ذریعے عورت کی سیاسی، سماجی، اخلاقی، معاشی اور آزادی کے لیے مسلسل جہد و جد کررہی ہیں۔
جدید دنیا میں فیمینسٹ آرٹسٹوں اپنی آرٹ، رائیٹنگ، گانا، شاعری، پینٹنگز اور، ڈرائنگ کے ذریعے غلامانہ سماج کی زنجیروں کو توڑنے کے متواتر کوششیں کررہے ہیں تاکہ سماج آزاد ہو اور عورت سکھ کا سانس لے سکیں۔ دوسرے الفاظ میں خواتیں فن کے ذریعے اپنی حقوق جنگ لڑ رہے ہیں، مزید وہ اپنے آرٹ کے ذریعے مرد ذہن میں جو عورت کی امیج اور جنسی تعصبات ہیں انکو چیلنج کرنے کی کوششیں کررہے ہیں۔ مرد کو اپنی دقیانوس ذہنیت کی منفی اثرات سے آگاہ کررہے ہیں، کہ عورت وہ نہیں جو آپ اپنی ذہنیت کے مطابق سمجھ رہے ہو یا جو آپکو اس سرمایہ دارانہ نظام نے سیکھا ہے۔ وہ مرد کا جوروایتی مائنڈ سیٹ عورت کے حوالے ہے اس کو پت توڑنے کی ہمت کررہے ہیں۔
فیمینسٹ آرٹسٹس اپنی آرٹ کو عورت کی سیاسی برابری اور سماجی انصاف اور نسوانی حقوق کے لیے بہترین انداز میں اظہار کررہے ہیں۔ ان بہادر اور بے باک خواتین آرٹسٹوں کو اس بات کی فکر نہیں کہ پدرسری نظام کے قدامت پسند مرد انکے حوالے کیا رائے قائم کرتے ہیں، وہ بہادری کے ساتھ پدرسری نظام کو چیلنج کرنے کے لیے اپنی مشن کو مستقل مزاجی اور ایمانداری کے ساتھ سرانجام دے رہے ہیں۔
فیمینسٹ آرٹسٹس کی ایک بنیادی کوشش اور کاوش رہی کہ وہ عورت کی ذہنی کرب، جذباتی اضظراب اور نفسیاتی مسائل کا عکاسی کریں کہ اس گھٹن زدہ، پدرسری اور سرمایہ دارانہ سماج جہاں عورت کس قدر اذیت اور کشمکش کی زندگی گزار رہے ہیں۔ اس خیال کی ترجمانی کرنے کے لیے کو وہ آرٹ کے ذریعے لوگوں یہ احساس دلانا چاہتے ہیں کہ عورت زات کس قدر خاموشی سے ظلم و جبر سہہ رہیں۔
آرٹ کا تعلق کسی قوم، زات، نسل، لسان، اور جنس سے نہیں ہے اس کا تعلق انسانی فطری تصورات، جذبات اور محنت سے ہے، بہترین آرٹ تخلیق کرنے کے لیے نفیساتی و جذباتی درکار ہے، عورت ذہنی، جذباتی، اور شعوری اعتبار سے جنتا زیادہ آزاد اور خود مختار ہوگی وہ بہتر سے بہترین آرٹ اپنے سماج و اپنے لوگوں کے لیے تخلیق کرسکتی ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔