بلوچ نیشنل موومنٹ کے ترجمان نے اپنے بیان میں ڈیرہ بگٹی میں پاکستانی فوج کی جارحانہ کارروائیوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ڈیرہ بگٹی میں پاکستانی فوج شہری آبادیوں کو نشانہ بنا رہی ہے۔ شہریوں کے خلاف فوجی طاقت اور گن شپ ہیلی کاپٹرز کے استعمال سے مالی اور جانی نقصان ہو رہا ہے جبکہ فوج کشی کے دوران درجنوں شہریوں کو گرفتاری کے بعد جبری لاپتہ کیا گیا ہے۔
ترجمان نے کہاکہ ڈیرہ بگٹی میں اتوار ، 10 ستمبر کو بڑے پیمانے پر شروع کیے گئے اس فوج کشی میں سوئی اور اُچ کے علاقوں گنڈوئی، سوناری مٹ، سردر پٹی، بشک، دم اور لگر دون میں حملے کیے جا رہے ہیں۔ ان حملوں میں گن شپ ہیلی کاپٹرز کے استعمال کی تصدیق ہوئی ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ مقامی ذرائع نے کہا ہے کہ پاکستانی فوج کے جدید اسلحہ سے لیس ایس ایس جی کمانڈوز کی بھی بڑی تعداد ان فوجی کارروائیوں میں حصہ لے رہی ہے۔ اب تک چالیس ٹرک پر مشتمل ایس ایس جی کمانڈوز کے کارروان کو علاقے میں نقل و حرکت کرتے ہوئے دیکھا گیا ہے ۔جس سے علاقے میں بڑے پیمانے پر خونریزی کا خدشہ ہے۔
ترجمان نے کہاکہ اس دوران بلوچی زبان کے شاعر عزیز بگٹی ، سلیمان بگٹی ، حاجی میاں خان بگٹی ، علی بخش ولد علی خان بگٹی ، پٹان بگٹی ولد مرزان بگٹی ، ھاشم ولد سوری بگٹی ، بابل بگٹی ،بجار ولد حاجی سبزل بگٹی،یعقوب بگٹی، کریم بگٹی اور مصطفی بگٹی کو پاکستانی فوج نے گرفتاری کے بعد جبری لاپتہ کیا ہے۔
ترجمان نے کہا جبری گمشدگیوں کی تعداد اس سے کئی زیادہ ہے۔ ان میں کم از کم دو کم عمر بچے بھی شامل ہیں۔ بہت سے لوگ خوف کی وجہ سے اپنے عزیزوں کی جبری گمشدگیاں ظاہر نہیں کر رہے جبکہ علاقے میں رسائی محدود ہونے کی وجہ سے بھی جبری گمشدگیوں اور دیگر نقصانات کی تفصیلات سامنے نہیں آ رہیں۔ پہاڑی علاقوں میں چھوٹے گاؤں دور دراز تک پھیلے ہوئے ہیں۔ پاکستانی فوج نے وسیع علاقے کو محاصرہ کیا ہے جس سے درجنوں گاؤں سے رابطے منقطع ہیں۔
انھوں نے کہا بلوچستان کے وسائل پر قبضے کے لیے پاکستانی فوج بلوچستان کے کونے کونے میں پھیلی ہوئی ہے۔ بلوچ اپنی سرزمین کی آزادی اور اپنے وسائل پر بلوچ قومی اختیار چاہتے ہیں جس کے ردعمل میں انھیں فوجی طاقت سے دبانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
ترجمان نے کہا حالیہ جارحانہ فوجی کاررائیوں کا مرکز ایک مرتبہ پھر سوئی ہے جہاں سے گذشتہ 73 سالوں سے پاکستان ’نیچرل گیس‘ لوٹ کر پنجاب اور پاکستان کے بڑے شہروں کی ضروریات پوری کر رہی ہے۔ جب سے یہاں گیس کی دریافت ہوئی ہے علاقہ پر پاکستانی فوج کا مکمل کنٹرول ہے۔ وسائل پر کنٹرول کے لیے بلوچستان کے دیگر علاقوں کی طرح یہاں بھی پاکستان ’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘ کی کالونیل پالیسی پر عمل کر رہا ہے۔اس پالیسی کے تحت سماج کو تقسیم کیا گیا ہے۔
انھوں نے کہا پاکستان کا نگران وزیر داخلہ سرفراز بگٹی ایک ریاستی دہشت گرد ہے جو پاکستانی فوج کے لیے ڈیتھ اسکواڈ چلا رہا ہے۔ پاکستانی فوج نے 29 مارچ 2018 کو اپنے وفاداروں پر مشتمل افراد کو اکھٹے کرکے ’بلوچستان عوامی پارٹی ‘ کے نام سے ایک پارٹی کی بنیاد رکھی تھی جس کے بنیادی اراکین میں موجودہ پاکستان کا نگران وزیراعظم ’ انوار الحق کاکڑ ‘ بھی شامل ہے۔ اس گروہ کو بلوچ قومی سیاست اور قومی مفادات کے خلاف متحرک کیا گیا ہے۔ اپنے ان کٹھ پتلیوں کو ریاست کے کلیدی دفاتر میں کو بٹھا کر پاکستانی فوج بلوچستان میں اپنے اہداف حاصل کرنا چاہتی ہے۔ ان اہداف میں بلوچستان کے وسائل کی لوٹ مار سرفہرست ہے۔
ترجمان نے کہا سرفراز بگٹی ڈیرہ بگٹی کو پاکستانی فوج کی طرف سے عطاکردہ اپنی جاگیر سمجھتی ہے۔ اس لیے وہ یہاں بلوچ قومی شعور کے ابھار سے خوفزدہ ہے۔ وہ ایک سازش کے ذریعے یہاں ان افراد کو نشانہ بنا رہا ہے جو اس کے نظریات اور قوم مخالف سوچ سے اختلاف رکھتے ہیں۔
بی این ایم ترجمان نے انسانی حقوق کے اداروں اور عالمی برادری سے اپیل کی ہے کہ وہ ڈیرہ بگٹی میں جاری فوج کشی کو روکنے کے لیے فوری مداخلت کریں۔