پاکستان افغانستان طورخم سرحد پر بدھ کی صبح سرحدی فورسز کے درمیان فائرنگ کے تبادلے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان اہم گزر گاہ دوسرے روز بھی بند ہے۔
دوسری جانب افغان طالبان نے طورخم سرحد پر حملے میں پہل کرنے کی ذمہ داری پاکستان پر عائد کی ہے۔
افغان طالبان کے مرکزی ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے جمعرات کو انڈپینڈنٹ اردو کو طورخم فائرنگ پر موقف دیتے ہوئے بتایا ہے کہ ’طورخم سرحد پر معمولی فائرنگ کا واقعہ پیش آیا ہے لیکن ہمیں اپنی فورسز نے یہ بتایا ہے کہ پہلے فائرنگ پاکستان کی جانب سے کی گئی تھی۔‘
افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ وہ اس معاملے پر پاکستانی حکام کے ساتھ بات کریں گے تاکہ مستقبل میں اس قسم کے واقعات کو روکا جا سکے۔
دوسری جانب طورخم پر پاکستان میں مقامی انتظامیہ کے اہلکار ارشاد مہمند نے فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ’افغان فورسز اس علاقے میں چیک پوسٹ قائم کر رہی تھیں جس کے بارے میں اتفاق کیا گیا تھا کہ وہاں دونوں جانب سے کوئی چیک پوسٹ قائم نہیں کی جائے گی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان کی جانب سے اس معاملے پر اعتراض کیے جانے پر افغان فورسز نے فائرنگ کر دی جس پر پاکستان کی بارڈر فورس نے جوابی فائرنگ کی۔‘
اس واقعے میں افغانستان نے جانی نقصان کا بھی دعویٰ کیا ہے تاہم اس کی تفصیلات سامنے نہیں آئی ہیں۔
اے ایف پی کے مطابق فائرنگ کا تبادلہ بدھ کی سہ پہر رکا لیکن سرحد تا حال بند ہے، حالات کشیدہ ہیں اور دونوں جانب فورسز چوکس ہیں۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان طورخم کے مقام پر گزرگاہ کلیدی تجارتی اہمیت کی حامل ہے جس کے راستے افغانستان سے کوئلہ آتا ہے اور پاکستان سے اشیائے خورد و نوش افغانستان جاتی ہیں۔
افغان طالبان کی وزارت داخلہ کے ترجمان عبدالمتین قانی نے بدھ کو اے ایف پی کو بتایا تھا کہ ’اس جھڑپ کی وجوہات کے سدباب کے لیے کوشش کی جا رہی ہے کہ تاکہ آئندہ اس قسم کے واقعات رو نما نہ ہو سکیں۔‘
کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد طورخم سرحد پر متعدد بار پاکستانی سکیورٹی فورسز اور افغان طالبان کی فورسز کے مابین جھڑپیں رپورٹ ہوئی ہیں۔
حالات کشیدہ ہونے کے بعد ماضی میں بھی طورخم بارڈر متعدد بار بند کیا گیا ہے جس سے مسافروں کو شدید مشکلات اور تجارتی سامان کی نقل و حرکت سے وابستہ کاروبار کو نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔