پاکستان اور افغانستان کے حکام کے مطابق دونوں ممالک کے درمیان طورخم بارڈر جمعے کی صبح کھول دیا گیا، جس کے بعد مسافروں کی آمد و رفت اور تجارتی سرگرمیوں کا سلسلہ ایک بار پھر شروع ہوگیا۔
ضلع خیبر کی تحصیل لنڈی کوتل کی حدود میں واقع یہ سرحدی کراسنگ چھ ستمبر کو سرحد پر فورسز کے درمیان فائرنگ کی وجہ سے بند کی گئی تھی۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ضلع خیبر کے اسسٹنٹ کمشنر ارشد خان نے جمعے کو تصدیق کرتے ہوئے کہا: ’ٹرکوں کی کلیئرنس کا عمل شروع ہوچکا ہے اور افغان شہری کلیئرنس اور امیگریشن کے بعد افغانستان میں داخل ہو رہے ہیں۔‘
پاکستان اور افغان حکام نے جمعرات کو بھی اس حوالے سے تصدیق کی تھی۔ ضلع خیبر میں محکمہ کسٹم کے اسسٹنٹ کلیکٹر محب خان نے انڈپینڈنٹ اردو کے نامہ نگار اظہار اللہ کو بتایا تھا کہ طورخم سرحد جمعے کو صبح سات بجے سے کھول دی جائے گی۔
دوسری جانب افغانستان کے صوبہ ننگرہار کے اطلاعاتی مرکز سے جاری بیان میں کہا گیا کہ طورخم سرحد جمعے کی صبح آٹھ بجے کھول دی جائے گی جبکہ طورخم کے افغان کمشنر مولوی عصمت اللہ یعقوب نے باختر ایجنسی کو بتایا تھا کہ گیٹ کل (جمعے کو) آٹھ بجے مسافروں اور ٹرانزٹ (آمد و رفت) کے لیے کھول دیا جائے گا۔
اس سے قبل جمعرات کو دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے پریس بریفنگ میں کہا تھا کہ بارڈر کے حوالے سے کشیدہ حالات پر بات چیت جاری ہے اور فیصلہ حالات کے پیشِ نظر لیا جائے گا۔
ترجمان کا کہنا تھا: ’سرحد عارضی طور پر بند ہے۔ جب حالات کشیدہ ہوتے ہیں تو عارضی طور پر سرحد بند ہو جاتی ہے۔ پاکستان حالات کا جائزہ لے کر ہی طورخم سرحد کھولنے کا فیصلہ کرے گا۔‘
جمعرات کو کابل میں پاکستانی سفارت خانے اور افغان حکام کے مابین ایک نشست بھی ہوئی تھی، جس میں سرحد پر موجود مسافروں اور کاروباری افراد کو درپیش مشکلات پر تبادلہ خیال کیا گیا تھا۔
خبر رساں ایجنسی اے ایف پی نے منگل کو ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ ایک زیر تعمیر افغان چیک پوسٹ پر تنازعے میں دونوں اطراف سے فائرنگ کے تازہ واقعے کے بعد اسلام آباد اور کابل کے درمیان سفارتی ڈیڈ لاک تھا۔
رپورٹ کے مطابق دونوں ملکوں نے ایک دوسرے پر پہلے فائرنگ کا الزام عائد کیا تھا۔
ضلع خیبر کے ڈپٹی کمشنر جمال ناصر نے اے ایف پی کو بتایا کہ ٹرکوں اور ٹرالوں پر مشتمل 1300 گاڑیاں سرحد کھلنے کی منتظر تھیں۔
پاکستان کی وزارت خارجہ نے پیر کو بارڈر پر کشیدگی کے حوالے سے کہا تھا کہ ’افغان سرحدی سکیورٹی فورسز کی بلا اشتعال فائرنگ سے دہشت گرد عناصر کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔‘
دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے کہا کہ پاکستان نے سرحد پر تعینات افغان فوجیوں کی جانب سے مسلسل غیر ضروری اشتعال انگیزی کے باوجود تحمل کا مظاہرہ جاری رکھا اور مذاکرات کو ترجیح دی ہے۔
طالبان حکومت کی وزارت خارجہ نے ہفتے کے اختتام پر کہا تھا کہ پاکستان کی جانب سے اپنے سرحدی محافظوں پر مبینہ حملہ ’اچھے ہمسایہ تعلقات کے منافی‘ ہے۔
افغان وزارت خارجہ کے مطابق گیٹ کی بندش کو کسی بھی صورت میں جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔
طورخم ٹرانسپورٹرز ایسوسی ایشن کے مطابق سرحد کے دونوں اطراف ایک ہزار سے زیادہ مال بردار ٹرک اور دوسری گاڑیاں کھڑی ہیں، جن میں موجود خورد و نوش کی اشیا خصوصاً پھل اور سبزیاں خراب ہو رہی ہیں۔
خیبر پختونخوا کے ضلع خیبر کے لنڈی کوتل بازار میں بدھ کو طورخم سرحد کی بندش کے خلاف دھرنا دیا گیا تھا۔
کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد طورخم بارڈر پر متعدد بار پاکستانی سکیورٹی فورسز اور افغان طالبان کی فورسز کے مابین جھڑپیں رپورٹ ہوئی ہیں۔