شبیر بلوچ کی جبری گمشدگی کے 7 سال، حکومت بھائی کی بازیابی میں کردار ادا کرے – ہمشیرہ

112

شبیر بلوچ کی گمشدگی کو 4 اکتوبر کو سات سال مکمل ہوجائیں گے۔ اس موقع پر کراچی پریس کلب میں ایک ریلی کا انعقاد کیا جائے گا۔

اس حوالے سے لاپتہ شبیر بلوچ کی بہن سیما بلوچ نے اپنے بیان میں کہا کہ میرے بھائی شبیر بلوچ کو 4 اکتوبر 2016ء کو تربت کے علاقے گورکوپ سے ان کی زوجہ زرینہ کے سامنے لاپتا کیا گیا۔ جن کے بارے میں ہمیں آج تک کوئی اطلاع موصول نہیں کہ وہ کہاں اور کس حال میں ہیں یا تو وہ ہیں بھی یا نہیں۔

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (آزاد) کے رہنما شبیر بلوچ کی ہمشیرہ سیما بلوچ نے اپنے بیان میں کہا کہ ہماری زندگیاں 4 اکتوبر 2016ء کے بعد سے تباہ ہوگئی ہیں میری ماں راتوں میں اٹھ کر بیٹھ جاتی ہیں اس آس پر کہ شاید اس کا بیٹا دروازہ کھٹکھٹائے اور ایسا نہ ہو کہ وہ سورہے ہوں۔

سیما بلوچ نے کہا میری بہنیں ہنسنا، مسکرانہ تو شاید بھول گئی ہیں۔ زرینہ جس کا شوہر اس کے سامنے اٹھایا گیا وہ خود ابھی تک چھوٹی ہے،جہاں زرینہ کو اپنے شوہر کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی بسر کرنا تھی، وہیں زرینہ کو یہ نہیں پتا کہ اس کا شوہر زندہ بھی ہے کہ نہیں۔

انہوں نے کہا جس دن سے شبیر لاپتہ ہوا ہے، اس دن سے میں کراچی، کوئٹہ، اسلام آباد میں دھکے کھا رہی ہوں لیکن ہمیں شبیر کے حوالے سے کوئی اطلاع نہیں۔

سیما بلوچ کا مزید کہنا تھا شبیر بلوچ کو 4 اکتوبر 2016ء کو تربت کے علاقے گورکوپ سے دیگر 20 افراد کے ہمراہ لاپتہ کیا گیا ایک دو ہفتے بعد دیگر تمام افراد رہا ہوگئے لیکن شبیر کی تاحال کوئی خبر نہیں۔

انہوں نے مزید بلوچستان کے کئی لاپتہ افراد کی طرح شبیر بلوچ کا کیس بھی وفاقی حکومت کی جانب سے قائم جبری گمشدگیوں کی انکوائری کے کمیشن میں درج ہے۔

انکا کہنا تھا ہم متعدد بار کمیشن کے سامنے پیش ہوئے لیکن حل کوئی نہیں۔ سیما بلوچ نے کہا کہ 4 اکتوبر 2023ء کو آرٹس کونسل تا کراچی پریس کلب ایک احتجاجی ریلی کا انعقاد کیا جائے گا، اور اسی دن سوشل میڈیا کمپین بھی چلائیں گے۔