شاہ کے بیتوں جیسی ماں کو کس پرچم میں لپیٹو گے؟
تحریر: محمد خان داؤد
دی بلوچستان پوسٹ
نہیں معلوم یہ کس نے کہا ہے کہ
”غریبوں کی ماؤں کو رونے دو،ان کے آنسو،آنسو ہی ہو تے ہیں ویسے ہی نمکین،ویسے ہی کھارے،ان غریبوں کی ماؤں کی آنکھوں میں گلیسرین نہیں ہوتا درد ہوتا ہے،اور درد داروں نہیں ہوتا،درد،تکلیف ہو تی ہے“
آج اس کی ماں کے پاس بھی بس آنسو ہیں،نمکین،کھارے اور درد!
وہ ماں درد اور تکلیف میں ایسے رو رہی ہے جیسے تھر میں بارشوں میں مور مر جائے
جیسے چلتی راہ میں سانول مارا جائے
جیسے کارونجھر کی کور سے درد کو کورا جائے
جیسے ڈائینا مائیٹ کے دھماکے کارونجھر کی کور کوری جائے
جیسے بہت کچھ باقی ہو پر کچھ نہ رہا جائے
جیسے کچھ پاس نہ ہو پھر بھی لگے کہ بہت کچھ ہے
اب ڈھلتے سورج میں اس ماں کے پاس کیا ہے؟
ّآج نما شام کو کیا ہے؟
آج شب کو کیا ہوگا؟
اور کل صبح کو کیا ہوگا؟
وہ ماں تو بس درد کے سکتے میں آ گئی ہے،وہ ماں روئے،سر پیٹے،سینہ کوبی کرے یا ماتم
آخر یہ ماں کیا کرے؟
جس کے بیٹے کا سینہ لہو لہو ہوا
جس کے جسدِ خاکی پر کل قومی پرچم ہوگا
پھر یہ غلام قوم سب کچھ بھلا دے گی کہ ٹنڈو آدم کی سڑکوں پر کس کا لہو بہا تھا
اور خشک ہو تے لہو پر چنگچی اس گیت پر دوڑا کریگی کہ
”ہم سندھ میں رہنے والی سندھی مہمان نواز ہیں سارے!“
اور اک ماں ماتمی لباس میں ماتمی موسم میں اداس ڈوبتے سورج کو ڈوبتا دیکھ رہی ہو گی
یہ غلام قوم اس ماں کے آنسو کیوں نہیں دیکھ رہی جس ماں کے آنسو گلسرین سے نکلے ہوئے نہیں ہیں۔یہ آنسو درد سے نکلے ہیں۔اور درد بھی وہ جو راہ چلتے بھونکتی بندوق نے دیا ہے جس بھونکتی بندوق کی گولی بہت آگے نکل گئی اور ماں اس سرد لاشے کے ساتھ وہیں رہ گئی!کہنے کو وہ گولی بس ایک جسم میں پیوست ہوئی ہے اب فیصلہ آپ کریں کہ آج ٹنڈو آدم میں چلنی والی گولی بس ایک جسم میں پیوست ہے یا وہ گولی پو رے سندھ کو گھائل کر گئی ہے؟کاش یہ گولی پو رے سندھ کو گھائل کر جاتی۔کشمور سے لیکر کیٹی بندر تک سب لہو لہو ہوتا،پر ایسا بھی نہیں یہ گولی دو فٹ سے چلی افضل لنڈ زخمی ہوا اور وہ گولی اس ماں کے سینے میں پویست ہوگئی جو ماں نما شام کو کچے گھر میں افضل کے شادی کے گیت گا رہی تھی۔وہ ماں اب افضل کے ساتھ آخری رات بسر کر رہی ہے۔کل دو قبریں ہونگی اک پتھریلے ٹنڈو آدم کے سینے پر دوسری اس ماں کے دل میں جو ماں اس وقت لہو لہو ہو تے افضل لنڈ کا سرہانے سنبھالے بیٹھی ہے!
کاش ڈھلتی رات کے ساتھ درد بھی ڈھل جائیں
کاش ختم ہو تی رات کے ساتھ درد بھی ختم ہو جائیں
کاش نئی صبح کے ساتھ اُمیدیں بھی نئی ہوں!
پر سندھ دھرتی پر ایسا کچھ نہیں۔لہو لہو بیٹے کے سرہانے ماں بیٹھی ہے اس ماں کو درد کی رات میں نیند کہاں اگر یہ ماں لہو لہو بیٹے کے سرہانے سو بھی جاتی ہے تو کیا جاگنے پر وہ لہو لہو بیٹا زندہ ہوگا؟
اک آنکھ کیا۔اک دیس کیا۔اک دھرتی اور اک آکاش کیا
پر اگر آج پو ری کائینات بھی سو جائے جب بھی وہ ماں نہیں سو سکتی جس ماں کا مور جیسا بیٹا بارشوں میں مور جیسے مر گیا جس کے لیے یاز نے لکھا تھا کہ
”ویو وسکا رے میں مور مری.
تھی کیڈیون دانھون ڈیل کرے!“
”برستی بارشوں میں مور مر گیا،دیکھو ڈیل کیسے اسے یاد کر کے رو رہی ہے!“
پر یہ تو بارشوں سے پہلے ہی مر گیا ہے
بہار سے پہلے
روشنیوں سے پہلے
خوشبوؤں سے پہلے
تتلیوں کے رنگوں سے پہلے
اس کا قصور بس یہ تھا جس کے لیے لیویڈ نے کہا تھا کہ
”اور انہوں نے میرا یقین نہیں کیا۔معض اس لیے کہ وہ جانتے تھے کہ
میں نے جو کچھ کہا سچ ہے!“
سچ ہی تو تھا۔اگر وہ سچ نہ ہوتا تو آج اس کے سینے میں بہت سی گولیاں پیوست نہیں ہو تیں اور وہ آج رات ماتمی کرتی ماں کے گال چوم رہا ہوتا۔پر وہ سچ تھا
انا الحق جیسا سچ
منصور جیسا سچ
سرمد
اور سرمد کی سولی جیسا سچ
یسوع اور یسوع کی صلیب جیسا سچ
اس لیے نہ تو وہ زندہ ہے اور نہ ہی ماں کے گال چوم رہا ہے
وہ جا چکا ہے اور سرہانے اس کی ماں اس کے لہو لہو گال چوم رہی ہے
یسوع کی صلیب چڑھنا کیا ہے؟منصور کا خاک ہونا کیا ہے؟سرمد کا پھانسی پر جھول جانا کیا ہے؟اور افضل لنڈ کا لہو لہو ہونا کیا ہے؟یہ ان ماؤں سے پوچھو جن ماؤں نے محبت میں یسوع جیسے بچے جنے اور غلامی نے ان بچوں کو مصلوب کر دیا!
افضل لنڈ کا بس یہ قصور تھا کہ اس لال لہو جیسے پرچم
اور مہندی کے پھولوں سجی دھرتی سے محبت تھی
کل افضل لنڈ کو تو لال لہو پرچم کے حوالے کر دو گے
پر اس ماں کو کس پرچم میں لپیٹو گے
جو ماں شاہ کے بیتوں جیسی ہے
وائیوں جیسی ہے
درد جیسی ہے
نا تمام!
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔