سعودی عرب اور انڈیا کے ذریعے اسرائیل کے وارے نیارے
تحریر: انور ساجدی
دی بلوچستان پوسٹ
انڈیا مشرق وسطیٰ یورپ اکنامک کاریڈور کا اصل مقصد کئی درجن ممالک کو اسرائیل کی زلف کا اسیر بنانا ہے کیونکہ جب یہ راہداری مکمل ہوگی تو اس کا مرکز اسرائیلی بندرگاہ ”حیفہ“ ہوگا۔تمام مال بردار جہاز حیفہ سے مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک اور پھر یورپ تک جائیں گے۔یہ منصوبہ ریل اور سمندری گزرگاہوں پر مشتمل ہوگا۔اسکی منظوری نئی دہلی میں ہونے والی جی20 کانفرنس میں دی گئی۔منصوبہ کے خدوخال کا اعلان سعودی ولی عہد ایم بی ایس اور انڈیا کے وزیراعظم نریندرمودی نے کیا۔ کانفرنس میں شریک امریکی صدر جو بائیڈن اور یورپی یونین کے صدر نے خاص طور پر نئے کاریڈورکی حمایت کی۔اس کا ایک بڑا مقصد چین کو اپنے بیلٹ اور روڈ منصوبے کو آگے بڑھانے سے روکنا ہے۔ عین ممکن ہے کہ بعض افریقی ممالک چین کے منصوبے میں شمولیت کا اعلان کر دیں کیونکہ چین یونہی خاموش بیٹھا نہیں رہے گا اور اس کے لئے اربوں ڈالر خرچ کرنا امریکہ کے مقابلے میں زیادہ آسان ہے۔اس کی وجہ چینی نظام ہے جہاں صدر اور کمیونسٹ پارٹی کے سیکریٹری جنرل کو فیصلوں کا مکمل اختیار ہے اور وہ کسی کے سامنے جوابدہ نہیں ۔ اس کے برعکس امریکہ اور یورپی ممالک اپنی اپنی پارلیمنٹ کے سامنے جوابدہ ہیں۔لگتا یہی ہے کہ نئے اقتصادی راہداری منصوبہ کے بھاری بھر کم مالی اخراجات کا بوجھ سعودی عرب اور انڈیاہی اٹھائیں گے کیونکہ کساد بازاری کی وجہ سے امریکہ اور یورپی یونین کے ممالک اس پوزیشن میں نہیں کہ وہ کھربوں ڈالر خرچ کر سکیں۔
سعودی معیشت اگرچہ مشرق وسطیٰ کی تیزی سے ترقی کرنے والی معیشت ہے لیکن وہ کئی میگا منصوبوں میں پھنس چکا ہے۔اسے اسرائیل کے پہلو میں واقع اپنے شہر نیوم کی تکمیل کے لئے کئی کھرب ڈالر درکار ہیں جبکہ وہ 12ہزار کلو میٹر طویل ایک مصنوعی دریا بھی بنا رہا ہے۔اس پر بھی نیوم شہر جتنی رقم خرچ ہوگی۔ حال ہی میں سعودی عرب کے ایک اعلیٰ اہلکار نے واضح طورپر کہا کہ ہم پاکستان ،مصر اور لبنان کی مالی مدد کرتے کرتے تنگ آچکے ہیں لہٰذا یہ امداد ہمیشہ جاری نہیں رہ سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب نے سرمایہ کاری کے لئے انڈیا کا انتخاب کیا اور یہ دنیا کا دستور ہے کہ کنگال شخص یا ملک سے کوئی تعلقات جوڑے نہیں رکھتا بلکہ مختلف ممالک محض اپنا فائدہ دیکھتے ہیں۔پاکستانی حکمرانوں کو سمجھنا چاہیے کہ یہ1990,1980 اور سن2000 نہیں ہے۔اس دوران دنیا بدل چکی ہے۔معاشی ذرائع تبدیل ہو چکے ہیں۔ٹیکنالوجی بدل چکی ہے۔اس لئے پسماندہ ممالک کو اہمیت حاصل نہیں ہے۔اس کے باوجود کہ مودی کے انڈیا میں مسلمانوں پر مظالم ڈھائے جا رہے ہیں مکہ مدینہ کے خادم اور مقدس ترین سرزمین کے حاکم نے اسلامی ملک پاکستان کو چھوڑ کر انڈیا کا انتخاب کیا۔سعودی عرب کے ساتھ متحدہ عرب امارات بھی انڈیا پہنچ گیا ہے اور ابتدائی طور پر ایک سو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کررہا ہے۔اگرچہ یہ معلوم نہیں کہ انڈیا اور سعودی عرب جو راہداری بنا رہے ہیں اس کا خرچہ کتنا ہے تاہم یہ بات یقینی ہے کہ اس منصوبہ کے اخراجات ”سی پیک“ سے کہیں زیادہ ہیں۔سی پیک چین کا ایک معمولی منصوبہ ہے جو شدید ناکامی سے دوچار ہو کر اپنی اہمیت کھو چکا ہے۔اگر دیکھا جائے تو انڈیا اور سعودی عرب کے نئے کاریڈور سے وقتیطور پر سعودی عرب کا نقصان ہوگا کیونکہ جو مال آئے گا وہ ریڈسی کے بجائے اسرائیل کے ذریعے بحر روم میں داخل ہوگا۔
اس منصوبہ سے نہر سوئز کی اہمیت بھی آدھی رہ جائے گی جو مصری معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔مصر بھی سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے شدید مالی مشکلات کا شکار ہے۔اوپر سے سوڈان اور ایتھوپیا دریائے نیل پر بڑے ڈیم بنا کر اس کی شہ رگ پر حملہ آور ہیں۔جنرل عبدالفتح السیسی نے جب سے اخوان حکومت کا تختہ الٹا ہے مصر پائی پائی کا محتاج ہے۔سعودی عرب 10برسوں میں اسے سینکڑوں ارب ڈالر امداد دے چکا ہے لیکن خسارہ کی وجہ سے اس ملک کی حالت بدتر ہے۔ جنگ کے زمانے میں علاقائی ممالک کو مصر کی ضروت پڑتی تھی لیکن اسرائیل سے صلح کے بعد مصر کی ضرورت امریکہ کو ہے اور نہ ہی علاقائی ممالک کو حالانکہ پہلی خلیجی جنگ کے دوران حسنی مبارک نے سارا غیر ملکی قرضہ معاف کروایا تھا لیکن وہاں کی لمبی چوڑی فوج اور اس کے اخراجات کی وجہ سے مصر مشرق وسطیٰ کا مرد بیمار بن چکا ہے۔ بدقسمتی سے یہی مرتبہ کا حامل جنوبی ایشیا میں پاکستان ہے۔جی20 کانفرنس میں شرکت کے لئے ولی عہد محمد بن سلمان جب انڈیا جا رہے تھے تو ہمارے دفتر خارجہ نے بہت کوشش کی کہ وہ چند لمحوں کے لئے پاکستان میں بھی قدم رنجہ فرمائیں لیکن وہ جلدی میں تھے اور آنے کی فرصت نہیں تھی۔ولی عہد محمد سلمان بہت تیزی کے ساتھ اپنے ملک کو عظیم ترقی سے ہمکنار کرنا چاہتے ہیں کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ تیل اور اس کی معیشت کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ ایک طرف وہ نوام شہر کو عالمی سیاحتی و تجارتی مرکز بنانا چاہتے ہیں تو دوسری جانب وہ آمدنی کے ذرائع تبدیل کرنے کے اقدامات تیزی کے ساتھ کر رہے ہیں۔ان کا منصوبہ ہے کہ 2030 تک سعودی عرب کا انحصار تیل پر سے ختم ہو جائے۔اس تبدیلی کے لئے انہوں نے بڑے پیمانے پر اصلاحات کی ہیں جن میں دین کو بطور ہتھیار استعمال کا مسئلہ ترک کر کے جدید سائنسی علوم پر توجہ ،تعلیمی اداروں کو نئے دور کے مطابق ہم آہنگ کرنا جنگ و جدل کی پالیسی ترک کرنا جس کے تحت یمن کی جنگ ختم کی گئی جبکہ ایران سے تعلقات بحال کئے ۔اس کا اگلا مرحلہ اسرائیل کو تسلیم کرنا ہے۔
قدرتی بات ہے کہ انڈیا سعودی راہداری کا محور حیفہ کی بندرگاہ ہوگی تو صرف وہی ممالک اس راہداری کو استعمال کر سکیں گے جن کے تعلقات اسرائیل سے ہوں گے۔سعودی عرب اور دیگر اسلامی ممالک اپنے عظیم تر معاشی مفادات کی خاطر فلسطین کو بھولتے جا رہے ہیں اور وہ وقت زیادہ دور نہیں جب دو ریاستی مطالبہ بھی ترک کر دیا جائے گا یا یہ بھی ممکن ہے کہ سعودی عرب اسرائیل کو قائل کرے کہ وہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرے اور جنگ کے بجائے اپنے معاشی سیاسی اہداف حاصل کرے۔کچھ بھی ممکن ہے ۔جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو وہ ریکوڈک میں اپنے 50فیصد شیئرز سعودی عرب کو دینے کی پیش کش کر چکا ہے لیکن دو روز قبل سعودی عرب کی جانب سے پاکستانی سسٹم اور بیورو کریسی کی طرف سے رکاوٹوں کے بارے میں اعتراضات اٹھائے گئے ہیں ان اعتراضات کو دور کرنے کے لئے کئی اجلاس بھی ہوئے ہیں اسی طرح یہ واضح نہیں کہ سعودی عرب گوادر میں آئل ریفائنری لگائے گا کہ نہیں کیونکہ موجودہ حالات میں سعودی عرب کا سارا جھکاﺅ بھارت کی طرف ہے کیونکہ وہاں سے اپنے اہم ترین معاشی مفادات حاصل ہونے کی توقع ہے۔
پاکستان کا ایک اہم مسئلہ دہشت گردی کا تدارک بھی ہے جس میں ابھی تک کامیابی نظر نہیں آ رہی ہے۔ تحریک طالبان پاکستان نے حال ہی میں چترال میں جو حملے کئے اس کی قیادت ٹی ٹی پی کے سربراہ نور ولی محسود نے خود کی ۔اس سلسلے میں کچھ تصاویر بھی جاری کی گئیں انہوں نے ایسے مقام پر حملہ کیا جہاں افغانستان اور تاجکستان کی سرحد ملتی ہے۔یہ علاقہ واخان کے قریب ہے۔اس حملہ کا مقصد واخان کاریڈور کو ڈسٹرب کرنا تھا جہاں سے پاکستان وسطی ایشیائی ممالک سے تجارت کا خواہش مند ہے۔یہ حملہ چین کے لئے بھی بڑا پیغام ہے کیونکہ اسی راستے ٹی ٹی پی او القاعدہ مجاہدین چینی صوبہ سنکیانگ پہنچتے ہیں۔چترال لواری ٹنل کھلنے سے پہلے ایک پرامن علاقہ تھا۔دو ہزار سال پہلے یہ کافروں کا وطن تھا لیکن مغلوں نے آکر ان پر قبضہ کرلیا۔بعد ازاں انگریزوں نے کافروں کو دو علاقوں تک محدود کر دیا۔
1980 کی افغان جنگ کے نتیجے میں مہاجرین کی بڑی تعداد یہاں پر آئی اور انہوںنے سینکڑوں مدارس کھولے اس کام میں جے یو آئی اور جماعت اسلامی نے ان کی مدد کی۔کئی سال پہلے میں دروش سے نگرفورٹ جا رہا تھا تو راستے میں جے یو آئی کے جتھے جن کے سروں پر جمعیت کا مخصوص رومال بندھا ہوا تھا نظر آئے۔پہلے یہ لوگ تبلیغ کے نام پر آئے تھے لیکن آبادیوں کا سروے کر کے رپورٹ طالبان کو بھیجتے تھے جس کے نتیجے میں کیلاش ،آغا خانی اور دیگر اقلیتوں پر دباﺅ ڈالا گیا کہ وہ مذہب تبدیل کر لیں۔میں سوچتا ہوں کہ بلوچستان کے مختلف حصوں میں جمعیت کی جو تنظیمیں ہیں وہ وہی کام تو نہیں کر رہیں جو انہوں نے چترال اور گلگت بلتستان میں کیا تھا کہیں غفور حیدری، خالد ولید سیفی اور اسماعیل بلیدی سروے کے کام پر مامور تو نہیں تاکہ طالبان کے لئے آسانی پیدا ہو جائے۔حال ہی میں ایک ویڈیو کے ذریعے ایک امریکی تھنک ٹینک اپنی پیشن گوئی کر رہا تھا کہ افغانستان کے جنوب مغربی علاقوں پر مشتمل ایک ملک بنے گا اس کا واضح اشارہ پختونستان کے پرانے نظریہ کی جانب تھا یعنی باچا خان ولی خان اور اجمل خٹک تو یہ مقصد حاصل نہ کرسکے لیکن طالبان اس جانب بڑھ رہے ہیں۔چاہے وہ دین کے نام پر ریاست قائم کریں یا قومیت کے نام پر۔افغانستان کے سابق صدر اشرف غنی کے دفتر میں گریٹر افغانستان کا جو نقشہ لٹکا ہوا تھا اس میں بلوچستان کو بھی افغانستان کا حصہ دکھایا گیا تھا۔طالبان نے اقتدار میں آ کر وہ نقشہ نہیں بدلا ۔خالد ولید اور ساتھیوں سے گزارش ہے کہ وہ مذہبی سیاست ضرور کریں لیکن گلزمین کے خلاف سازشوں کا حصہ نہ بنیں یہی درخواست مولانا ہدایت الرحمن سے بھی ہے۔چترال ہو یا سابقہ فاٹا یہ وہ اہم حصے ہیں۔قیام امن بہت مشکل دکھائی دیتا ہے اور جب تک امن نہ ہوگا غیر ملکی سرمایہ کاری نہیں آئے گی لہٰذا حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ غریبوں کے بجلی کنڈے دور کرنے کے بجائے امراءکے گھروں کے کنڈے ہٹا دیں جہاں سے اربوں ڈالر ملیں گے کیونکہ جو کچھ کرنا ہے ہم نے اندر سے کرنا ہے باہر سے کوئی مدد کو آنے والا نہیں ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔