سسکتے انسان ۔ منیر بلوچ

161

سسکتے انسان

تحریر: منیر بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ

سہانا موسم اور دلکش نظارہ ایسے لگتا ہے بادل ابھی گرج برس کر موسم کو اور خوبصورت رنگ میں سجا لیں گے لیکن ایسے خوبصورت موسم میں عبدالرحمن پریشان سر پر ہاتھ رکھ کر بیٹھا ہوا تھا، اچانک اس کا چھوٹا بھائی کمرے میں داخل ہوا۔عبدالرحمن کو اپنا چھوٹا بھائی بہت عزیز تھا وہ اسکی ہر بات غور سے سنتا اسکی خواہشات پورا کرنے کی کوشش کرتا اور اس سے ہی اپنے دل کی بات کہتا۔

عبدالرحمن کا چھوٹا بھائی جس کا نام موسی ہے میٹرک کے نتائج کا انتظار کررہا تھا تاکہ کالج میں داخلہ لے سکیں اور عبدالرحمن اپنے آبا وجداد کے پیشے ماہی گیری سے منسلک تھا جہاں روزی روٹی کا بندوبست کرنے کے لئے موت کو گلے لگانا پڑتا ہے۔ موسی نے جب اپنے بڑے بھائی کو پریشانی کی حالت میں دیکھا تو آکر اسکے پاس بیٹھا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر کہا کہ بھائی مجھے لگتا ہے کہ آپ پریشان ہو؟ کیا وجہ ہے آپکو کیا مسئلہ درپیش ہے جسکی وجہ سے آپ پریشان ہو؟

عبدالرحمن نے بھائی کی بات سن کر چہرے پر ہلکی مسکراہٹ سجائی اور کہا کہ نہیں پریشان نہیں ہوں میں بس ایسے ہی سوچ رہا ہو کہ دنیا کتنی ترقی کرچکا ہے لیکن ہم وہیں کے وہیں کیوں ہے؟ ہم کیوں اپنے حالت تبدیل نہیں کرتے؟ موسی جو عمر میں چھوٹا تھا لیکن اسکی باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ماہر سماجیات ہے جو سماج کی بیماریوں اور ان کے حل سے واقف تھا اور جانتا تھا کہ تبدیلی کا عمل اس سماج میں بہت مشکل ہے جہاں لوگوں کو سہولیات میسر نہیں, جہاں لوگ روزگار سے محروم ہے, جہاں لوگ امیروں کو عزت دیتے ہیں اور غریبوں کو دھتکارتے ہیں ان میں شعور لانا بہت مشکل ہے.
دونوں بھائی اپنے سماج کی موضوعی و معروضی حالات اور اپنے ماحول سے باهر کی دنیا کا موازانہ کرکے اس نتیجے پر پهنچے که همارا سماج کی پسماندگی هم سے جڑی هوئی هے جب تک هم اپنے آپ کو تبدیلی نهیں کریں گے ، سماج کے هر فرد کو اس حقیقت سے آگاهی نهیں دینگے که لوگ کیوں سسک سسک کر مرجاتے هیں؟ همیں کیوں ذهنی و جسمانی سکون میسر نهیں؟ کیوں هم جسمانی مشقت و ذهنی مشقت کرنے کے باوجود اپنی خواهشات کی تکمیل نهیں کرسکتے؟

همیں یه بتانا هوگا که قومی نظریے کے بغیر هم اپنی منزل تک نهیں پهنچ سکتے کیونکه یه صرف فردی مسله نهیں بلکه اجتماعی مسله هے اور اجتماعی مسله ان تمام سسکتے انسانوں کو ایک جگه مجتمع کرکے، شعور کی روشنی سے منور کرکے هی حاصل کی جاسکتی هے.

جب بحث و مباحثه اختتام پذیر هوا تو موسی نے دل میں عهد کرلیا که وه ان تمام امور کی انجام دهی کے لئے جدوجهد کرے گا اور اپنی تعلیم کے دوران هی ان سیاسی پیچیدگیوں کو حل کرنے کے لئے اپنے لوگوں سے بات کریں گا انهیں جدوجهد کی طرف راغب کرنے کی کوشش کریں گا.

کچھ دنوں کے بعد اس کا بڑا بھائی عبدالرحمن اپنے روزگار کے سلسلے میں سمندر چلا گیا اور موسی اپنے خیالات اور سوچ کے مطابق عوام کی شعوری تربیت اور اپنے پڑھائی میں مگن رها. دن مهینے سال گزرتے چلے گئے اور موسی یونیورسٹی کا طالب علم بن گیا لیکن وه جتنا وقت اپنے پڑھائی کو دیتا اتنا وقت اپنے لوگوں اور اپنے علاقائی طالب علموں کو دیتا تاکه انهیں بینکنگ نظام تعلیم کے بجائے حقیقی تعلیم کی جانب راغب کریں.

اس چار ساله جدوجهد نے جتنا موسی میں نکھار پیدا کیا تھا اتنا نکھار اب سماج کے دیگر افراد میں بھی نظر آرها تھا ان کی سوچ میں تبدیلی نظر آنے لگی تھی ان کی باتیں جو صرف لاف زنی پر مرکوز رهتی تھی اب وه سیاست سماج اور اپنے مستقبل کی فکر میں لگ گئے تھے.
لیکن اچانک هی دنیا بدل گئی جو همیشه مظلوموں اور سسکتے انسانوں کے هاتھوں کی لیکروں میں موجود رهتی هے.

موسی جب یونیورسٹی گیا تو واپس نهیں آیا هفته دس دن گزر گئے لیکن کسی کو موسی کے بارے کچھ علم نهیں هوا. ایک دن کسی بچے نے سمندر کے کنارے ایک لاش دیکھی اور خوف کی وجه سے بھاگ نکلا اور گھر جاکر اپنے والدین کو بتایا که سمندر کے کنارے کسی کی لاش پڑی هے۔

. اس وقت ان کے گھر میں عبدالرحمن بھی موجود تھا.تین چار لوگ سمندر کنارے پهنچے لاش کو دیکھا تو وه لاش موسی کی تھی. موسی کی لاش کو دیکھتے هی عبدالرحمن کی زبان حلق سے نکل گئی اور جب اسکی لاش کو دفنایا گیا اس دن کے بعد عبدالرحمن علاقے کے کسی درخت کے نیچے بیٹھا هوا ملتا کیونکه وه اپنا هوش و حواس کھو کر پاگل هوچکا تھا.


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔