سردار عطاء اللہ مینگل ہجوم کے بجائے باعمل کارکنوں کو اپنا اثاثہ سمجھتے تھے – میر جاوید مینگل

225

بلوچ قوم پرست رہنماء میر جاوید مینگل نے اپنے والد، قوم پرست رہنماء سردار عطاء اللہ خان مینگل کی دوسری برسی کے موقع پر اپنے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ 2 ستمبر 2021 کو ایک عہد کا خاتمہ ہوا تھا اور اس دن والد صاحب جسمانی طور پر ہم سے ہمیشہ کے لئے جدا ہوگئے، وہ جسمانی طور پر ہم سے ضرور جدا ہوگئے ہیں لیکن اُن کے نظریات، تعلیمات اور سوچ بلوچ قوم کے ساتھ ہیں اور صدیوں تک ہماری رہنمائی کرتی رہینگی۔

انہوں نے کہا کہ ہم اُن کے جائیداد کے وارث تو ضرور ہوسکتے ہیں لیکن اُن کے نظریے کے وارث اس وقت تک ہم نہیں بن سکتے جب تک ہم اُن کے نظریہ پر عمل نہیں کرینگے اور اُن کی سیاسی تعلیمات کو نہیں اپنائیں گئے۔

میر جاوید مینگل نے کہا کہ بلوچ قوم و بلوچ نوجوان سردار عطاء اللہ مینگل کی سیاسی زندگی، نظریہ، تعلیمات اور کردار کا بغور مطالعہ کریں اور اُن کے انٹرویوز اور فرمودات کو پڑھیں کہ اُن کے قومی و سیاسی ترجیحات کیا تھیں۔ والد صاحب غلامی کی کسی بھی صورت کو پسند نہیں کرتے تھے، انہوں نے اپنے ایک انٹرویو میں اس بات کا کھل کر اظہار بھی کیا تھا کہ اگر کوئی مجھے اپنا غلام بنانا چاہے گا تو میں اس کے منہ پر دس دفعہ تھوکوں گا میں مرنا پسند کرونگا لیکن کسی کی غلامی پسند نہیں کرونگا اُن کی زندگی اور سیاسی سفر مصلحت پسندی سے پاک و صاف تھی۔

میر جاوید مینگل نے مزید کہا کہ سردار عطاء اللہ مینگل کو خراج تحسین پیش کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہم اُن کے نقش قدم پر چلیں اُن کی تعلیمات اور سوچ و کردار کو اپنائیں۔

میر جاوید مینگل نے کہا کہ بعض سیاستدان اکثر کہتے ہیکہ سردار مینگل نے پاکستان میں جمہوریت اور آئین کی بالادستی کے لئے جدوجہد کی ہے جو صریحاً مبالغہ آرائی اور تاریخ کو جھٹلانے کے سواء اور کچھ نہیں کیونکہ 1973 کا آئین متفقہ آئین نہیں، میر غوث بخش بزنجو کے علاؤہ بلوچستان کے دیگر نمائندوں نے آئین پر دستخط کرنے سے انکار کیا تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ 3 ستمبر کو بلوچ قوم نے سردار عطاء اللہ مینگل کے صرف جسد خاکی کو دفن کیا تھا، مگر اُن کے نظریات اور خیالات کو نہیں ہمیں اُن کے نظریات اور خیالات کو اپنانا چاہیے۔ کوئی بھی فرد، پارٹی یا تنظیم یہ دعویٰ کرتی ہے کہ وہ سردار عطاء اللہ مینگل کی سیاست کے وارث ہیں تو اُن سے میں یہ گزارش کرونگا کہ وہ سردار عطاء اللہ مینگل کی سیاسی وارث ہونے کا دعویٰ کرنے سے پہلے ایک بار بغور اُن کی سیاست اور نظریات پر نظر دوڑائیں اور اپنی سیاسی موقف اور پالیسیوں پر بھی نظر ڈالیں میں یہ بات یقین سے کہتا ہوں کہ انہیں اس درمیان بہت بڑی خلاء نظر آئے گی۔

انہوں نے مزید کہا کہ جس پارٹی کو انہوں نے تشکیل دی تھی آج مخلص ورکروں کو چھوڑیں بلکہ ریاست کے پیدا کردہ لوگ اور پارٹیاں بھی اُس پارٹی کے پالیسیوں اور فیصلوں پر تنقید کرتے ہیں تو یہ عمل سردار عطاء اللہ مینگل کے نام پر سیاست کرنے والوں کے لئے لمحہ فکریہ ہونا چاہیے اور انہیں ایک بار پھر اپنے فیصلوں اور پالیسیوں کا جائزہ لینا چاہیے۔

میر جاوید مینگل نے کہا کہ والد ہجوم کے بجائے باکردار اور باعمل سیاسی کارکنوں کو اپنا اثاثہ سمجھتے تھے اور وہ اکثر یہ بات کہتے تھے کہ بے مقصد ہجوم کے بجائے اگر آپ کے ساتھ دس مخلص ساتھی ہوں وہ بے مقصد ہجوم سے کئی درجہ بہتر ہیں۔

میر جاوید مینگل نے مزید کہا کہ 70 کے دہائی میں جب نیپ نے بلوچستان میں اکثریتی جماعت بن کر ابھری تو جب حکومت سازی کا معرکہ آیا تو میر غوث بخش بزنجو نے گورنر شپ کے لئے اپنے آپ کو منتخب کیا اور وزارت اعلیٰ کے لئے نواب خیر بخش مری اور سردار عطاء اللہ مینگل کو کو پارٹی نے کہا کہ آپ دونوں خود فیصلہ کریں کہ کون وزیر اعلیٰ بنے گا، تو دونوں نے وزارت اعلیٰ لینے سے معذرت کرلی، والد نے نواب صاحب سے کہا کہ وہ یہ عہدہ سنبھالیں جبکہ نواب صاحب کا اصرار تھا کہ والد وزیر اعلیٰ بن جائے اور کئی دنوں تک یہ فیصلہ نہیں ہو پایا تو میر غوث بخش بزنجو نے ازراہ مذاق انہیں کہا کہ آپ لوگ ایسے وزارتِ اعلیٰ کے عہدے سے ڈر رہے ہیں کہ آپ لوگوں کو وزارت اعلیٰ کی کرسی پر نہیں بلکہ پھانسی دلوا رہے ہیں اور پھر نواب صاحب کے بڑی اصرار پر والد راضی ہوئے لیکن آج سیاست میں مخلصی اور خود داری کے بجائے لوگ عہدوں اور مراعات کو ترجیح دیتے ہیں اور سیاست کو تجارت سمجھ کر اس میں شامل ہوتے ہیں۔

“والد صاحب کے 9 ماہ کی حکومت کو لوگ آج بھی یاد کرتے ہیں اور اُس دور حکومت کے نشانیاں آج بھی بلوچستان میں یونیورسٹیوں کی صورت میں وجود رکھتے ہیں اور اس کے علاؤہ نیپ حکومت کے اقدامات کی وجہ سے تعلیم یافتہ بلوچ اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوئے۔”

میر جاوید مینگل نے مزید کہا کہ جو نوجوان سردار عطاء اللہ مینگل کے نقش قدم پر چلنا چاہتے ہیں تو وہ اُن کے اس پیغام پر ضرور غور و فکر کریں کہ انہوں نے نوجوانوں کو مخاطب ہوکر کہا تھا کہ خدا کے لئے اور اس سرزمین کی خاک کیلئے اپنی ذمہ داریوں کا احساس کریں جو آپ پر بحیثیت نئی نسل کے عائد ہوتی ہے آپ مت بھولے کہ آج آپ تاریخ کے سامنے جواب دہ ہیں کل جو مورخ آپ کی تاریخ لکھے گا وہ آپ سے پوچھ کہ نہیں لکھے گا بلکہ آپ کے کردار کو دیکھ کر لکھے گا اپنے آپ کو ایک مقام اس تاریخ میں دیں جس پر آپ کے آنے والی نسل فخر کرسکے نہ کہ وہ آپ کے کردار کو دیکھ کر شرمندہ ہوں۔