جبری لاپتہ کبیر بلوچ کی والدہ نے کہا ہے کہ میرے بیٹے کبیر بلوچ کو 15 سال قبل 27 مارچ 2009 کو بلوچستان کے ضلع خضدار سے دن دیہاڑے سیشن کورٹ سے چند فرلانگ کے فاصلے پر مرکزی شاہراہ سے اُس کے ساتھی عطا اللہ اور مشتاق بلوچ کے ہمراہ اغواء کرکے لاپتہ کیا گیا تھا جو تاحال بازیاب نہیں ہوسکے اور پچھلے 15 سالوں سے میں اپنے بیٹے کو ڈھونڈ رہا ہوں، اور اس 15 سالہ طویل انتظار کی اذیت کو صرف وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جنہوں نے اپنا کوئی پیارا کھو دیا ہے۔
انہوں نے کہا ہم نے ان 15 سالوں میں انصاف کے حصول کے لئے ہر دروازے کو کھٹکھٹایا ہے۔ لیکن ان بند دروازوں کے پیچھے انصاف دینے کے ذمہ دار لوگ انصاف کی فراہمی کے بجائے زخموں کو مزید کرید کرید کر اُن پر نمک پاشی میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے بچوں کو ڈھونڈنے میں ہماری مدد کرنے کے بجائے ہمیں مزید اذیت اور مصائب کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ہم پر طنز کیا جاتا ہے، ہمیں کبھی بتایا جاتا ہے کہ آپ کے بچے بیرون ملک چلے گئے ہیں، کبھی انہیں مفرور قرار دیا جاتا ہے، تو کبھی انہیں دہشت گرد قرار دیا جاتا ہے۔ اگر وہ بیرون ملک ہوتے تو کیا ہم خصدار سے کوئٹہ تک کا مسافت طے کرکے اِن بے اختیار کمیشنوں اور عدالتوں میں اس طرح بے بسی کا مجسمہ بن کر دھکے کھاتے اور اِن کی باتیں اور طنز سہتے؟ ہم مجبور ہے، ہمارے بچے لاپتہ ہیں اس لئے ہم یہ جانتے اور سمجھتے ہوئے کہ یہ عدالتیں، کمیشنز اور دیگر تمام ادارے بے اختیار ہے اس کے باوجود بھی اُن کے سامنے پیش ہوکر اپنی بے بسی کا رونا روتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ طویل سے طویل تر ہوتی انتظار ڈھلتی عمر کے ساتھ اور زیادہ تکلیف دہ ہوتی جارہی ہے لہذا میں مہذب انسان دوست قوتوں اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں سے اپیل کرتی ہوں کہ انسانی ہمدردی کے بنیاد پر ہماری مدد کریں اور میرے جبری لاپتہ کئے گئے بے گناہ بیٹے کبیر بلوچ اس کے ساتھی عطاء اللہ، مشتاق بلوچ سمیت تمام لاپتہ افراد کو بازیاب کرنے کے لئے کردار ادا کریں۔