دلیل، دلیل میں وزن
تحریر: شفیق الرحمٰن ساسولی
دی بلوچستان پوسٹ
دوستو! اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری گفتگو میں دلیل، دلیل میں وزن اور اس وزن میں ایک نظریاتی و فکری وِژن نظر آئے تو ہمیں چاہیئے کہ اپنے گفتگو میں فحش اور طنزیہ الفاظ کے استمعال سے گریز کریں، کبھی کسی سے بدکلامی نہ کریں، جب بھی کسی سے بحث کریں یا اپنے نظریاتی مخالف سے کسی بھی فورم پہ بات چیت کریں تو سامنے کی نظریہ و وژن، روایات اور معاشرتی آداب کا خیال رکھتے ہوئے ہر قسم کی طنز، گالی یا بے ہودہ القاباب سے اجتناب کریں- گالم گلوچ یا حقیر گفتگو کی وجہ یہ ہے کہ اس طرح وہ سننے والا/ پڑھنے والا خود کیلئے گالی یا حقارت آمیز الفاظ دیکھتے/ سنتے ہی بقیہ جملہ نہیں سنتا/نہیں پڑھتا اور اس کو “وکٹم/ متاثرہ “ بننے کا یہ بہانہ مل جاتا ہے کہ اس کو گالی دی گئی یا اس کے ساتھ حقارت آمیز لہجہ اختیار کیاگیا- اگر وہ واقعتاً براہے تو یوں اس بہانے سے وہ اپنی اصل برائی اور نا اہلی کو چھپالیتاہے۔
یاد رکھیں! اخلاق، شائستگی اور دلیل سے بڑا کوئی ہتھیار نہیں، اخلاق و روایات کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے سوالاً جواباً بحث زیادہ منطقی اور نتیجہ خیز ہوتی ہے- اعداد و شمار اور حقائق ہمیشہ موقف کو مضبوط اور بات/ دعویٰ کیلئے مہرِثبت کا سامان بنتے ہیں-
لہٰذا اپنے نظریہ اور اپنی آیڈیالوجی پہ قائم و کاربند رہتے ہوئے صرف غیرشائستہ انداز بدلنے کی ضرورت ہے، اگر ہم اپنے لہجے میں شائستگی پیدا کرتے ہوئے حقائق کی بنیاد پہ دلیل سے گفتگو کریں گے تو یقیناً ہماری بات ہر سننے/ پڑھنے والے کیلئے پُراثر ہوگی اور مخالف کو لاجواب بلکہ زیادہ اضطراب کا شکار بنائےگی-
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔