جب یہ دیس ہمارا ہوگا
تحریر: بُزرگ بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
اس بات سے ہر باشعور انسان بہتر طریقے سے واقف ہے کہ دنیا میں جتنی بھی قوموں نے اپنے وطن زبان نسل یا قومی شناخت کی جنگیں لڑی ہیں وہ ہر صورت میں آخر جیت گے اور اپنی اس اجتماعی مفاد کا فائدہ حاصل کیا ہے ظالم کی زندگی میں روشنی اُس صبح تک ہے جب تک مظلوم اسکے سامنے خاموش ہے جس دن بھی محکوم نے اپنے حقوق کی دفاع شروع کیا ظالم کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنے لگا جھکنے کے بجائے سیدھا کھڑا ھوگیا تو اس دن سے ظالم کو سمجھ لینا چاہیے کہ اس کو اب ہر دن ایک بہت برا خبر سسننے کو ملے گا۔ کیونکہ اس وقت پھر مظلوم کا شعور جاگ چکا ہوتا ہے اور اسکو دنیا کی کوئی طاقت کچل نہیں سکتا۔
اسی طرح یہی حال میرے مادر وطن بلوچستان کی ہے ۔ جب 1839 میں فرنگی نے یہاں پہلا قدم رکھا تو اسکو اسی دن سے خیرمقدم کے بجائے بلوچ کی جانب سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا اسی دن سے اسکو اینٹ کا جواب پھتر سے دیا گیا۔ وہ اور نہ اسکے جانشین آج تک سرزمینِ بلوچستان میں اپنے قدم جمائی کر سکے نہ کر سکیں گے انشااللہ وہ آج بھی اس نازک موڑ(تْلار) پہ کھڑا ہے کہ ایک ہی دہکے سے گرکر چورچور ہو جائے گا۔لیکن افسوس اُس وقت بھی اور آج بھی ہمارے اپنوں نے اسکے پاؤں میں رسْیاں ڈال کر مضبوط کیا ہوا کہ کہیں انکا آقا گِر نہ جائے اور انکی روٹی پانی بند نہ ہو۔
اس حقیقت سے وہ اور اسکے مہربان اچھی طرح واقف ہیں کہ دیر یا جلد ہمیں اس موڑ سے گِریا جائے گا۔ اور وہ گِرانے والے وطن زادے ہونگے وہ بلوچ ہونگے عملی نسلی ثقافتی باحیا پہاڑوں کے شہزادے ہونگے۔جنکو میرے دیس میں “فراری” کہا جاتا ہے ۔جب وطن کے وہ پروانے کالے انگریزوں کو نکالنے میں کامیاب ہونگے جب یہ غلیظ میرے وطن سے دفع ہو جائیں گے، تو یہ وطن ہمارا ہوگا تو لوگ بھی ہمارے ہونگیں زمیں ہماری ہوگی زماں ہمارا ہوگا یہ چمن ہمارا ہوگا یہ آسماں ہماری ہوگی، یہ دریا ہمارے ہونگے گْوادر ہمارا ہوگا سیندک ہمارا ہوگا چاغی ہماری ہوگی ۔کلُو (قلات) ہمارا ہوگا یہ فضا ہماری ہوگی اور دفاع بھی ہماری ہوگی۔
عشق آزاد ہوگا رشتے آزاد ہونگے ہر مذہب آزاد ہوگا ہر فرقہ ؤ فقہ آزاد ہوگا۔زبان آزاد ہوگی سڑک آزاد ہونگیں یونیورسٹیاں اپنے ہونگیں سْیاست اپنا ہوگا ریاست اپنی ہوگی ۔ جب ہمارے روڈؤں پہ ہماری آنے والی نسل سفر کرے گی تو وہاں شہیدوں کے نام ہونگے انکے مجسمے ہونگیں وہ ان سے پیار کریں گے۔ وہ اپنے شہیدوں کو اپنا آئیڈیل بنائیں گے۔ ہمارے بچے بھی چاند پر جانے کے خواب کو تعبیر کرنے کی ہرصبح ہر ممکن کوشش کریں گے اور اس کوشش میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوگا۔ جب ان شعارعوں کی شناخت ہمارے قومی ہیروز کے ناموں سے ہوگا۔ تو وہ (جرنل اسلم روڈ، بابا مری روڈ،بابو نوروز اسٹیڈیم ، آغا عبدلکریم کمپلیکس نواب بگٹی روڑ، شہید غلام محمد چوک، لالامنیر سڑک، واجہ شیر محمد چوک ،بانک کریمہ پارک، سنگت ثناء ٹاؤن، ذاکر جان سنٹرل لائبریری، شہید مجید ایئر بیئس، ،شہید حمید مارکیٹ سردار عطااللہ کالج، میر عوث بخش یونیورسٹی ، جرنل شیرف آڈیٹوریم ، شہید پالاچ ہسپتال چیئرمین فتح ٹرینگ سینٹر، ریحان پولیس لائن، شہید شاری ایئرپورٹ ، شہید سمیعہ شعارع، شہید شہزاد دہوار ریسرچ سینڑ،) وغیرہ ہوگا ۔اور پھر یوں پورے دیس میں ہر شہید کے نام سے اسکے علاقے میں ایک فلائی ادارہ ہوگا ایک تعلیمی ادارہ ہوگا سے لوگ ییار کریں گے اور محبت قائم ہوگی ہر آنے والی نسل میں شہیدوں کے ذکر زبانِ زد عام ہو گا۔
پھر ہمارے بچے بغیر خوف سکول جائیں گے وہ ہر روز صبح اپنے قومی بیرک کو فخر سے سلام کریں گے ۔ وہ ہر صبح اپنا قومی ترانہ ما چُکیں بلوچانی ما گُلوڑیں شیرانی کو بغیر خوف پڑیں گے اور اسکو اپنے سینے میں محفوظ کریں گے اپنے قومی فوج کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھیں گے ۔جس طرح موجودہ دور میں جو عظمت ایک بلوچ قومی سپاہی کی ہے وہ کسی بھی شبعے سے تعلق رکھنے والے کا نہیں ۔ ہماری قومی فوج سرحدوں کی دفاع کرے گی۔ ناپاکوں سے ہماری مادر وطن کو پاک کریں گے ۔ اور دشمن کے ہر چال کو اپنے عمل سے ناکام بنائیں گے ۔ پھر یہ دیس بے خوف ہوگا یہاں خوف کی فضاء ہمیشہ کیلئے اُٹھ جائے گا۔ کوئی ڈیتھ اسکواڈ نہیں ہوگا ۔ نہ کوئی سردار ، میر ، ٹکری نہ لگڑبگڑ ہوگا ۔ پھر کوئی زندان میں نہیں ہوگا نہ کوئی لاپتہ، نہ کوئی جیلی مقابلہ ہوگا نہ کوئی دہشگرد ہوگا نہ ہی کسی کو غداری کی سرٹیفکیٹ ملے گی اور نہ کوئی دہشت ہوگی ، بس محبت مذہب ہوگا پیار ایمان ہوگی ، پھر صرف ہر بلوچ آزاد اس وطن کا مالک ہوگا ہر بلوچ ہر وطن زادہ اپنا زندگی کا ہر فیصلہ خود آزادی سے کرے گا۔۔ پھر سب کچھ ہمارا ہوگا یہ دنیا ہماری ہوگی ۔ جینا ہمارا ہوگا ۔مرنا ہمارا ۔۔۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔