یورپ کی بحری کمپنیاں بنگلہ دیش کے ساحلوں پر پرانے بحری جہازوں کو خطرناک اور آلودہ حالات میں اسکریپ میں تبدیل کر رہی ہیں جن کے نتیجے میں انہیں توڑنے والے کارکن ہلاک ہوچکے ہیں ۔
بنگلہ دیش کے جنوب مشرق میں واقع سٹاکونڈا دنیا بھر میں شپ بریکنگ کا ایک سب سے بڑا مرکز بن گیا ہے۔ ناکارہ بحری جہازوں کو توڑنے سے جنوبی ایشیا کے اس ملک کی تعمیراتی صنعت ترقی کر رہی ہے اور لوہے کے سستے ذرائع کی ضرورت بھی پوری ہو رہی ہے۔
یورپی کمپنیاں ان شپنگ کمپنیوں میں شامل ہیں جنہوں نے 2020 سے اب تک 520 پرانے اور ناکارہ بحری جہازوں کو توڑنے اور ان کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے لیے بنگلہ دیش کے اس مقام پر بھیجا ہے جہاں ہزاروں کارکن یہ کام کسی حفاظتی لباس یا حفاظتی کٹ کے استعمال کے بغیر کرتے ہیں ۔
انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کی ایک ریسرچر ، جولیا بلیکنر کہتی ہیں کہ بنگلہ دیش کے خطرناک اور آلودہ شپ بریکنگ یارڈز میں بحری جہازوں کو توڑنے والی کمپنیاں بنگلہ دیشی لوگوں کی زندگیوں اور ماحول کو خطرے میں ڈال کر منافع کما رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بحری جہازوں کی کمپنیوں کو بین الاقوامی ضابطوں میں موجود ابہام یا کمزوریوں سے فائدہ اٹھانا ختم کر دینا چاہیے۔ انہیں بحری جہازوں کو توڑنے کے عمل میں کارکنوں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ کچرے کو مناسب طریقے سے ٹھکانے لگانے کے بندو بست سے متعلق اپنی ذمہ داری پوری کرنی چاہیے ۔
کارکنوں نے ہیومن رائٹس واچ کو بتایا کہ وہ بحری جہاز توڑتے ہوئے جرابیں اور دستانے پہنتے ہیں تاکہ پگھلے ہوئے اسٹیل کو کاٹتے ہوئے جلنے سے بچ سکیں اور زہریلی گیسوں سے بچنے کے لئے اپنے چہروں کو اپنی قمیصوں سے ڈھانپتے ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ کے مطابق شپ بریکنگ میں کام کرنے والے کارکنوں نے ایک بحری جہاز میں آگ لگنے یا پائپوں کے پھٹنے سے اسٹیل کے ٹکڑے گرنے یا جہاز کے اندر پھنس جانے سے کارکنوں کے زخمی ہونے کے بارے میں بتایا ۔ یہ رپورٹ ہیومن رائٹس واچ اور بیلجیم میں قائم این جی او شپ بریکنگ پلیٹ فارم نے مشترکہ طور پر شائع کی تھی۔
بنگلہ دیش میں ماحول سے متعلق ایک گروپ ینگ پاور ان سوشل ایکشن نے کہا ہے کہ سٹاکونڈا میں بحری جہاز توڑنے کے ایک مقام پر ہونے والے حادثات میں اب تک کم از کم 62 لوگ ہلاک ہو چکے ہیں۔
پولیس نے اے ایف پی کو بتایا ہے کہ گزشتہ ہفتے دو الگ الگ واقعات میں دو کارکن جزوی طور پر توڑے گئے ایک بحری جہاز سے گرنے کے بعد ہلاک ہو ئے۔
بنگلہ دیش کی شپ بریکنگ ایسو سی ایشن ، بی ایس بی اے نے ، جو شپ بریکنگ یارڈز کی نمائندگی کرتی ہے ، کہا ہے کہ اس کے ارکان نے ماحولیاتی طور پر محفوظ اسکریپنگ کے نئے انٹر نیشنل کنونشن کے 2025 میں نفاذ سے قبل اپنے حفاظتی انتظامات کو بہتر بنا لیا ہے ۔
بی ایس بی اے کے صدر محمد ابو طاہر نے اے ایف پی کو بتایا کہ ہم اپنے شپ بریکنگ یارڈ ز کو ماحولیاتی طور پر محفوظ بنارہے ہیں اگرچہ یہ بہت مہنگا کام ہے ۔ ہم اس پر کام کررہے ہیں ۔ ہم کارکنوں کو حفاظتی سازو سامان فراہم کر رہے ہیں۔
لیکن کام کی جگہوں پر سیفٹی اور سیکیورٹی کے ایک انفرمیشن سنٹر کے کو آرڈی نیٹر فضل الکبیر نے کہا ہے کہ یارڈ کے مالکان مقامی سیاست میں اپنے اثر و رسوخ کی وجہ سے ماحولیاتی آلودگی کے تحفظ کے تقاضے پورے نہیں کر رہے ۔ انہوں نے کہا کہ درجنوں یارڈز میں کارکنوں کی سیفٹی پر معمولی یا بالکل توجہ نہیں دی جاتی ۔
ایک فلاحی ادارے او ایس ایچ ای فاؤنڈیشن کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر رپن چودھری نے کہا کہ سٹاکونڈا بھیجے جانے والے بہت سے بحری جہاز وں میں خطرناک دھاتوں کے حامل انسولیٹرز ہوتے ہیں جو پھیپھڑوں کے کینسر اور زندگی کے لیے دوسری خطرناک بیماریوں کی وجہ بن سکتے ہیں ۔ رپن نے کہا کہ کارکنوں کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ دستانے پہنے بغیر اپنے ہاتھوں سے اس کے کچرے کو صاف کریں ۔
انہوں نے مزید کہا کہ ان کے ادارے نے شپ بریکنگ کے 110 کارکنوں میں زہریلے مادوں کے اثرات کا جائزہ لیا جن میں سے 33 کو کسی نہ کسی حد تک پھیپھڑوں کی بیماری لاحق ہو چکی تھی ۔ان میں سے تین کا انتقال ہو چکا ہے جب کہ باقی بہت پریشان کن زندگی گزار رہے ہیں ۔
جنوبی ایشیا میں پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت کے بعض علاقے شپ بریکنگ انڈسٹری کے لیے مشہور ہیں۔ پاکستان میں گڈانی کا ساحلی مقام اِس صنعت میں عالمی شہرت رکھتا ہے۔ لیکن شپ بریکنگ کے دوران حادثات اور ہلاکتوں کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں
نومبر 2016 میں گڈانی میں شپ بریکنگ کے دوران ایک جہاز میں آگ بھڑک اٹھی تھی جس میں دو درجن سے زائد مزدور ہلاک اور کئی زخمی ہو گئے تھے۔ شپنگ یارڈ میں جنوری 2017 میں بھی حادثہ ہوا تھا جس میں پانچ مزدور ہلاک ہو گئے تھے۔ یہ حادثات شپ بریکنگ کے دوران حفاظتی اقدامات نہ کئے جانے کے باعث رونما ہوئے۔شپ بریکنگ کو ایک مشکل اور انتہائی محنت طلب کام تصور کیا جاتا ہے۔