بلوچ کا خون سستا ۔ عزیز سنگھور

297

بلوچ کا خون سستا
تحریر: عزیز سنگھور
دی بلوچستان پوسٹ

کراچی کی بلوچ آبادیوں کو پھر سے گینگ وار،منشیات فروش اور جرائم پیشہ افراد کے حوالے کردیا گیا ہے۔ ان علاقوں میں جرائم پیشہ گروہوں کے درمیان قبضہ کیلئے ہونے والی لڑائیوں اور مسلح تصادم کا شکار عام شہری ہوتے ہیں۔ ان لڑائیوں میں جدید اسلحہ کا آزادانہ استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ ڈھکی چھپی بات نہیں کہ ان عناصر کو پولیس اور دیگر اداروں کی مکمل سرپرستی حاصل ہوتی ہے۔ اس وقت لیاری، پراناگولیمار، منگھوپیر، ملیر، مواچھ گوٹھ ، ماڑی پور اور ہاکس بے جیسے قدیم گوٹھوں کے گلی محلوں میں کھلے عام منشیات فروخت کی جارہی ہے۔ جس پر پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنےوالے اداروں نے آنکھیں بندکررکھی ہیں۔

رواں ماہ 7 ستمبر کو پرانا گولیمار میں منشیات فروش گروہوں کے درمیان مسلح تصادم کے نتیجے میں طاہر جدگال نامی بلوچ شہری کی ہلاکت ہوئی۔ مقتول اس روز گھر سے محنت مزدوری کے لئے نکلا تھا لیکن گھر پر اس کی لاش واپس آئی۔ یہ واقعہ گولیمار کے علاقے پاک کالونی پولیس کی حدود میں پیش آیا۔ اس قتل کے خلاف علاقہ مکینوں نے قاتلوں کی گرفتاری کیلئے سخت احتجاج کیا ۔ مظاہرین کے مطابق علاقے میں دن رات منشیات فروش گروپوں کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ رہتا ہے، انکی اس جنگ کا نشانہ عام شہری بنتے ہیں۔ مسلح گروپوں کے درمیان تصادم اور فائرنگ کے واقعات روز کا معمول بن چکا ہے۔ تاہم اس صورتحال میں کوئی بھی ادارہ کردار ادا کرتا دکھائی نہیں دیتا۔

اس سازش کو سمجھنے کے لئے ماضی کے محرکات کو سمجھنا ضروری ہے۔ کراچی کی قدیم آبادی لیاری نے جمہوریت کی بالادستی کی جدوجہد میں کبھی بھی مصلحت پسندی کا مظاہرہ نہیں کیا نا ہی یہاں کے لوگوں نے آمریت کے سامنے کبھی سر جھکایا۔ لیاری نے بے شمار سیاسی ورکرز پیدا کیے۔ جنہوں نے ریاست کی غیر جمہوری پالیسیوں اور ناانصافیوں کے خلاف ہمیشہ آواز اٹھائی۔ ان سیاسی ورکروں نے جیل کی سلاخیں اور شہادتیں بھی دیکھیں۔ لیاری کو سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے لِٹل ماسکو جبکہ اسپورٹس خصوصاً فٹبال کے ٹیلنٹ سے مالامال ہونے کی بدولت لِٹل برازیل کالقب ملا ہے۔

بلوچ علاقوں کے معاشرے کو غیر سیاسی بنانے کے لئے مختلف حربے اور ہتھکنڈے استعمال کئے جاتے رہے ہیں ۔ بلوچ نوجوانوں کے ہاتھوں میں کتاب کی جگہ اسلحہ تھمانے کا سلسلہ پھر سے شروع کردیاگیا ہے۔ ایک سازش کے ذریعے ان علاقوں میں منشیات فروشی کوفروغ دیا جارہا ہے۔ غیر سیاسی سماج کو جنم دینے کیلئے جرائم کو ایک نیٹ ورک کی شکل اور جرائم پیشہ افراد کو ایک منظم کمپنی (تنظیم) کی چھتری میں لایا جارہا ہے تاکہ معاشرے کو کریمنلائزڈ کیاجائے۔ معاشرہ غیرسیاسی ہوجائے تو حکومت کو مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا اور ان کے لیے اپنی حکمرانی کو طول دینا مزید آسان ہوجاتاہے۔

موجودہ صورتحال بھی ماضی کا ایک تسلسل ہے۔ ماضی میں ایک جرائم پیشہ فرد کو سرداری کا لقب اور عزیر بلوچ سے سردار عزیرجان بلوچ کا نام دیاگیا۔ کسی قبیلے کا سردار بننے بغیر یہ لقب پانا ایک حیران کن بات تھی۔ جس بنا پر اسے یہ لقب دیا گیا تو اس کا پورا نام سردار عزیر جان ہیروئن زئی لکھا جاتا تو سمجھ میں آتا تھا۔ کیونکہ وہ وہ لیاری کے باشعور عوام کا نہیں بلکہ ہیروئن فروخت کرنے والے جرائم پیشہ گروہ کا سردار تھا اور نہ ہی لیاری کے سیاسی عوام سرداری نظام کو مانتے ہیں۔
لیاری میں ماضی میں بھی دوگروپس بنا کر انہیں لڑایاگیا۔ اس لڑائی میں دونوں طرف سے ہزاروں نوجوان مارے گئے۔ خاندان کے خاندان تباہ اور لوگ دوسرے علاقوں کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے۔ گینگ وار کے کارندے ایک دوسرے کے گھر اور املاک تک جلاتے رہے۔ سڑکوں پر لاشوں کا ملنا معمول کی بات تھی جس کی وجہ سے ہر طرف خوف کا سماں تھا۔ اس تمام معاملے پر پولیس خاموش تماشائی بنی رہی۔گینگ وار کے کارندے قوم پرست اور ترقی پسند سیاست کرنے والوں کو دھمکیاں دیتے تھے۔ جس کی وجہ سے بعض لوگوں نے عزت نفس مجروح ہونے کی وجہ سے نقل مکانی کرلی۔

بلوچ اتحاد تحریک کے بانی شہید انور بھائی جان کی سربراہی میں لیاری میں امن قائم رکھنے کے لئے ایک کمیٹی بنائی گئی۔ یہ کمیٹی مختلف شعبۂ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد پر مشتمل تھی۔ جن میں انور بھائی جان، سابق رکن قومی اسمبلی نبیل گبول، سابق وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ، سابق اسپیکر سندھ اسمبلی سراج درانی، صحافی و مصنف لطیف بلوچ، کراچی پریس کلب کے موجودہ صدر سعید سربازی، راقم (عزیز سنگھور)، ماما یونس بلوچ اور دیگر شامل تھے۔ کمیٹی کے ارکان نے پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے مرکزی صدر اختر مینگل سے الگ الگ ملاقاتیں کیں۔ ملاقاتوں میں لیاری میں امن و امان کی صورتحال پر قابو پانے اور علاقے میں منشیات فروشی کی روک تھام پر تبادلہ خیال کیاگیا۔ مگر بدقسمتی سے ان کوششوں کو ناکام بنانے کے لئے کمیٹی کے سربراہ انور بھائی جان کو شہید کردیا گیا۔ جس کی وجہ سے کمیٹی اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام اور نادیدہ قوتیں کامیاب ہوگئیں۔

سیاسی قائدین اور سیاسی ورکرز کی شہادتوں کا سلسلہ یکے بعد دیگرے جاری رہا۔ جن میں سابق رکن قومی اسمبلی واجہ احمد کریم داد، لیاری ٹاؤن کے سابق نائب ناظم ملک محمدخان، اسلم بلوچ، عبدالخالق چاچا، عنایت، واجہ علی حیدر، شکوربلوچ، نذیر کونسلر اور دیگر شامل ہیں۔ انسان کا قتل انسانیت کا قتل جبکہ سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں کے قتل معاشرے کا قتل شمار کیا جاتا ہے۔ کیونکہ سیاسی لوگوں کی معاشرے اور سماج کے ساتھ کمٹمنٹ ہوتی ہے اور وہ معاشرے کیلئے اپنا مثبت کردار ادا کرتے ہیں۔ اس طرح لیاری کو ایک غیرسیاسی قیادت کے حوالے کرنے کی کوشش کی گئی۔

آج پھر لیاری سمیت کراچی کی دیگر بلوچ آبادیوں میں جرائم پیشہ افراد سرعام گھوم رہے ہیں۔ منشیات کی کھلے عام فروخت جاری ہے۔ بلوچ علاقوں کے سیاسی کلچر کو ایک مرتبہ پھر ضرب لگانے کی مکمل کوشش کی جارہی ہے۔ بے گناہ اور عام شہریوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ پولیس اور دیگر ادارے پھر سے مکمل خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ ۔ آج بھی بلوچ کو دوسرے درجہ کا شہری سمجھاجاتا ہے کیونکہ یہاں بلوچ کا خون سستا ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔