بلوچ فرزند شہید اعجاز بلوچ ۔ امجد دہوار

321

بلوچ فرزند شہید اعجاز بلوچ

تحریر: امجد دہوار
دی بلوچستان پوسٹ

24 اگست کی شب پاکستانی سیکورٹی فورسز و خفیہ اداروں نے قلات کے علاقے منگچر میں تقریبا رات 02 بجے کے قریب میر احمد بلوچ کے گھر پر چھاپہ مار کر گھر میں موجود عورتوں اور بچوں سمیت دیگر افراد کو شدید زد وکوب کر کے آنکھوں پر پٹیاں باندھ کر ایک کمرے میں بند کر دیا، گھر کے ایک فرد کو زبردستی اپنے ساتھ لے گئے جس کی شناخت اعجاز احمد ولد میراحمد بلوچ کے نام سے ہوئی جو اس سے قبل بھی پاکستانی فورسز کے ہاتھوں جبری گمشدگی کا شکار ہو چکے تھے۔

علاقائی ذرائع کے مطابق بعدازاں اعجاز بلوچ کے بڑے بھائی سعید احمد بلوچ نے پولیس تھانے میں اپنے بھائی اعجاز بلوچ کی جبری گمشدگی کا ایف آئی آر درج کرنے کی درخواست دیتے ہوئے کہا تھا کہ میرا بھائی اس سے قبل بھی جبری گمشدگی کا شکار ہو چکا ہے اور اب اسے ایک مرتبہ پھر ریاستی اداروں نے میرے بھائی اعجاز بلوچ کو ہراست کے بعد لاپتہ کر دیا ہے جس کے زندگی کو پاکستانی سیکورٹی فورسز و خفیہ اداروں کی جانب سے شدید خطرات لاحق ہیں۔

اس قبل بھی گزشتہ سال قلات سے تعلق رکھنے والے بلوچ فرزند شہزاد بلوچ ولد کیپٹن خدا بخش کو سیکورٹی فورسز نے موسی کالونی سریاب روڈ کوئٹہ سے اس کے ساتھیوں سمیت ہراست میں لے کر لاپتہ کر دیا تھا جسے سانحہ زیارت کے فیک اکاؤنٹر میں دگر بلوچ فرزندوں سمیت شہید کر دیا گیا تھا اسی طرح اب قلات کے رہاشی اعجاز احمد ولد میراحمد بلوچ کو سیکورٹی فورسز نے ان کے گھر منگچر سے ہراست میں لے کر تقریبا ایک ماہ بعد خضدار کے علاقے کھٹان میں ایک فیک اکاؤنٹر میں شہید کر دیا گیا کھٹان کے ایک رہائشی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر یہ انکشاف کیا کہ گذشتہ روز جو بیان سی ڈی ڈی کی جانب سے میڈیا پر شائع کر دیا گیا ہے کہ خضدار کے کھٹان میں سی ٹی ڈی اور مسلح افراد کے بیچ جڑپ ہوئی ہے جس کے نتیجہ میں دو افراد ہلاک ہوگئے ہیں اس میں کوئی شک نہیں گزشتہ دنوں اس طرح کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا ہے اسی طرح آئے روز لاپتہ بلوچ فرزندوں کو سی ٹی ڈی اور خفیہ ایجنسیاں جعلی مقابلوں میں شہید کردیتے ہیں۔

شہید اعجاز بلوچ کی نماز جنازہ منگچر اور ان کے آبائی شہر قلات کے علاقہ گراڑی میں ادا کر دی گئی شہید کے نماز جنازہ میں سینکڑوں افراد نے شرکت کی اور شہید اعزاز کے ساتھ سپرد ء گل زمین کر دیا گیا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔