ایک غم کا رقص تھا! ۔ ایس کے بلوچ

299

ایک غم کا رقص تھا!

تحریر: ایس کے بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ

کرتا ہُوں قتیلؔ ـــــ اَپنے گناہوں پہ بہت ناز
اِنسان ہُوں مَیں خُود کو فرشتہ نہِیں کہتا
بلوچ سماج میں کسی کی موت پر سوگ منانا ایک گناہ ثابت تو نہیں ہوتا لیکن تقریباً بلوچوں نے اپنے فرزندان سرزمین کے موت پر انقلابی گیت گنگنائے ہونگے، وہ وعدے کر رہے ہونگے کہ وہ اسی کاروان میں ہمیشہ ثابت قدم ہوکر مرنے کو ترجیح دیں گے، وہ تو مایوس نہیں ہوئے تھے اور نہ ہی اپنے ضمیر کا سوداگر تھے۔ ان میں شامل بلوچ مزاحمتی شاعر قاضی صاحب بھی تھے،لوگ انہیں گالی گلوچ دیتے، کبھی شرابی و چرسی کہا کرتے تو کبھی کسی اور برگ الفاظ سے نوازتے، وہ پیر مرد اپنی مثال خود تھے۔ آج اگرچہ آپ ان کے خلاف سخت الفاظ استعمال کریں یا کہ اچھے وہ تو مٹی میں جا ملے، وہ اپنے وطن کے حق ادا کر چلے گئے۔

اس طرح کے شخصیات کی موت پر آنسوؤں کی بازار تو گرم ہونگی لیکن یہ آنسوئیں رقص و موسیقی میں بدل جاتی ہیں، جس طرح مجھے تجربہ ہوا، میں نے سنا کہ ہمارے جوانوں نے قاضی کی موت پر انقلابی گیت گنگنائے، وہ رقص میں مدھوش خوب لطف اندوز ہوئے تھے لیکن یہ ایک غم اور امید کا رقص تھا۔

یہ رقص و موسیقی اور لطف انگیز حرکات ہر انسان کو حوصلے بخش دیتے ہیں کہ وہ ذندہ ہے، ان کے لوگ ذندہ ہیں، اب انہیں کاروان کو لیجانا ہوگا۔

عموماً یہی لوگ تاریخ کو تخلیق کرتے ہیں، سماج کو ان کے اپنے آئینہ سے دکھا کر ہوا یا مٹی میں جا ملتے ہیں۔ہم دیکھتے ہیں کہ تاریخ میں گوریلہ و سیاسی جنگجوؤں کے ساتھ ساتھ ادیب و دانشور ایک ہی صف کھڑا ہوکر دشمن کو ٹوکتے ہیں، انہیں پسپا کر دیتے ہیں۔

ادیب و دانشوران اپنے قلم و تخلیقات سے پھسے لوگوں کو آزادی کی شمع سے منور کرتے ہیں وہی گوریلہ و سیاسی جنگوؤں کا کام یہی ہے کہ شمع کو بجھانے نہ دیں، وہ ان کی حفاظت کریں،وہ آزادی کو حقیقی چہرا سے منور کریں۔

حالت جنگ میں ادب دانشوروں اور جنگجو وں کی حکمت عملیوں کے بغیر ادھورے رہ جائے گی، اس میں منطق و دلائل کی فقدان ہوگا۔ یہ حکمت عملیاں انقلاب برپا کرتے ہیں، ایک نئی صبح کی امید میں کھڑی کرتے ہیں۔ پھر یہ انقلاب ایک نئی روح جو ایک غلام سماج میں آئینہ کی کردار ادا کرتی ہے۔ جنگ ہوگی یا امن وہ عام لوگ نہ سارتر و نطشے کو قدر دیتے اور نہ ہی مبارک یا کمبر کو وہ تو شراب و تریاق یا کسی مست موالی کی جراثیم میں مبتلا ہوکر خود کو یہی غلط فہمی میں ڈالتے ہیں کہ وہ جو ہیں وہی وہ ہیں۔ دراصل اس طرح کے اشخاص سماج میں ایڈز کی طرح ہیں وہ ایک سے دوسرے میں منتقل ہوجاتے ہیں۔ان کی بیماری پورے سماج کی بیماری کا سبب بن جاتی ہے۔ یہ بیروکریٹ یا کسی کرپٹ نام نہاد دانشور سے بھی پیدا ہوتی ہے۔ یہی بیماری ایک نوآبادیاتی ماحول کو جنم دیتی ہے۔

لیکن اس طرح کی ماحول کے خلاف قاضی بھی تھے اور کہتے رہتے “خود کو پہچان لو۔”
ایک نڈر مزاحمتی انسان جو میں نے دیکھا
کفن باندھ کر میدانوں میں
کبھی پہاڑوں کے اوپر
توکبھی شہروں میں
عشق زمین پر فدا کی باتیں کرتے تھے
کہانیوں میں حسن و جمال کی
پہاڑوں میں نرمزاروں کی
شہروں میں لیڈروں کی
شاعری میں سماج کی
غیروں میں اپنوں کی
وہ تھا ایک ایسا فرشتہ
کہ جنگ کی گواہ بن کر چلے گئے
شمع روشن کی، جس نے
بیگانوں کو جگا کر چلے گئے
کبھی انقلابیوں کے محفل میں
تو کبھی فلسفیوں کے درمیان بحث چھیڑتے
وہ شہیدوں کی خون پر لکھتے
وہ اپنوں کی گالی گلوج برداشت کرتے
کبھی دیکھا ہے،آپ نے
وہ ایک نئی دنیا کا تصویر بھی تھا
ہر بچے کو پتہ ہی تو ہے کہ وہ کون تھا
وہ قمبر کیلئے قاضی تھے یا مبارک
لیکن قوم کیلئے ایک مزاحمتی شاعر تھے
کل جو رقص تھا
وہ ایک غم کا رقص تھا!


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔