ایران نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے کامیابی کے ساتھ اپنا ایک امیجنگ سیٹلائٹ خلا میں بھیج دیا ہے جو اب تقریباً 450 کلومیڑ کی بلندی پر زمین کے مدار میں گردش کر رہا ہے۔
امیجنگ سیٹلائٹ کا عمومی مقصد زمین کی سطح پر انسانی سرگرمیوں پر نظر رکھنا اور ان کا تصویری ڈیٹا اکھٹا کرنا ہوتا ہے۔
زمین کے قریب گردش کرنے والے امیجنگ سیٹلائٹس ، جن میں طاقت ور آلات نصب ہوں، زمین پر موجود ایک کار تک کی تصویر اتار سکتے ہیں اور اس کے محل وقوع سے متعلق ڈیٹا زمینی مرکز کو فراہم کر سکتے ہیں۔ جاسوسی کے لیے استعمال ہونے والے سیٹلائٹس زیادہ طاقت ور ہوتے ہیں اور وہ کار سے بھی چھوٹی چیزوں کی شناخت کر سکتے ہیں۔
ایران نے اپنے دعوے میں یہ نہیں بتایا کہ اس کا امیجنگ سیٹلائٹ کس نوعیت اور کتنی طاقت کا ہے۔
ایران پر جوہری ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ خلائی ٹیکنالوجی کے حصول پر بھی پابندیاں عائد ہیں۔ چنانچہ اس سیٹلائٹ کی لانچنگ کی وجہ سے مغربی ممالک کے ساتھ اس کے تناؤ میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
امیجنگ سیٹلائٹ کی لانچنگ کے اس دعوے کے ردعمل میں مغربی ممالک نے فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
ایران ایک عرصے سے خلا میں سیٹلائٹ بھیج رہا ہے اور متعدد بار اسے اپنی خلائی مہمات میں ناکامیوں کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے۔
ایران کی سرکاری میڈیا ایجنسی ارنا نے اپنی ایک رپورٹ میں وزیر مواصلات عیسیٰ زارع پور کے حوالے سے کہا ہے کہ نور تھری نامی سیٹلائٹ زمین کے مدار میں 280 میل کی بلندی پر بھیجا گیا ہے۔ ایجنسی کی رپورٹ میں یہ نہیں بتایا گیا کہ سیٹلائٹ کو کب روانہ کیا گیا تھا۔
یہ سیٹلائٹ ایران کی نیم فوجی تنظیم پاسداران انقلاب نے لانچ کیا ہے۔ عسکری گروپ کے اعلیٰ ترین عہدے دار جنرل حسین سلامی نے امیجنگ سیٹلائٹ کی لانچنگ کو فتح سے تعبیر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کی مدد سے تصاویر اور ڈیٹا اکھٹا کیا جائے گا۔
ایرانی حکام نے ایک موبائل لانچر سے راکٹ کو خلا میں بھیجنے کی فوٹیج جاری کی ہے، لیکن یہ نہیں بتایا کہ لانچنگ کب ہوئی تھی۔ ویڈیو کی تفصیلات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ سیٹلائٹ کو خلا میں بھیجنے کے لیے صوبہ سمنان کے امام خمینی خلائی مرکز کا استعمال ہوا ہے۔ یہ مرکز تہران سے لگ بھگ 330 کلومیٹر کے فاصلے پر شاہورد نامی قصبے کے قریب واقع ہے۔
ایران اپنا سویلین مقاصد کا خلائی پروگرام اسی مرکز سے چلاتا ہے۔
ایران کے خلائی پروگرام کی نگرانی پاسدارن انقلاب گروپ کرتا ہے۔ یہ فوج کے متوازی ایک طاقت ور عسکری گروپ ہے جو صرف سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کو جواب دہ ہے۔
پاسداران انقلاب نے جاسوسی کے لیے اپنا پہلا سیٹلائٹ اپریل 2020 میں خلا میں بھیجا تھا۔ جس کے بارے میں خلا سے متعلق امریکی کمانڈ کے سربراہ نے کہا تھا وہ خلا میں بھیجا جانے والا کم طاقت کا کیمرہ ہے ، جس کی جاسوسی کی صلاحیت انتہائی محدود ہے۔
اس موقع پر امریکہ نے یہ بھی کہا تھا کہ اس لانچنگ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ایران کا خلائی پروگرام صرف پر امن مقاصد کے لیے نہیں ہے۔
امریکہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایران کا سیٹلائٹ پروگرام اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی اس قرارداد کے منافی ہے جس میں تہران سے کہا گیا ہے کہ وہ جوہری ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھنے والے بیلسٹک میزائلوں کی تیاری سے باز رہے۔
گزشتہ سال امریکہ کی ایک انٹیلی جینس رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ایران سیٹلائٹ لانچنگ کے لیے جس ٹیکنالوجی کو ترقی دے رہا ہے اسے بین الابراعظمی بیلسٹک میزائلوں کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔
ایران نے ہمیشہ یہ کہا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے اورجوہری پروگرام ہی کی طرح اس کا خلائی پروگرام بھی مکمل طورپر سویلین ہے اور اس کا جوہری ہتھیار بنانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔
ایران نے 2015 میں خود پر عائد پابندیوں میں نرمی کے بدلے مغربی طاقتوں سے اپنی جوہری سرگرمیاں محدود کرنے کا معاہدہ کیا تھا جس میں امریکہ، فرانس، برطانیہ، جرمنی، روس اور چین شامل تھے۔ بعد ازاں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے معاہدے کو ناکافی قرار دیتے ہوئے امریکہ کو اس معاہدے سے الگ کر دیا تھا۔
ایران جوہری پروگرام کے ساتھ ساتھ اپنے خلائی پروگرام کو بھی آگے بڑھا رہا ہے۔ سن 2013 میں اس نے ایک زندہ بندر کو بھی خلا میں بھیجنے کا تجربہ کیا تھا۔ لیکن حالیہ برسوں میں اسے مسلسل ناکامیوں کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے اور اس کے لگاتار پانچ سیٹلائٹ مشن ناکام ہو چکے ہیں۔
ایران اپنے تازہ امیجنگ سیٹلائٹ لانچنگ کو ایک اہم کامیابی کے طور پر دیکھ رہا ہے۔