اب وہ کبھی بھی پریس کلب نہیں آئیں گے
تحریر: سہیل سانگی
دی بلوچستان پوسٹ
ہمارے کامریڈ دوست شاہد حسین ہم سے جدا ہوگئے۔ شاہد حسین 70 کے شروع سے پارٹی سے منسلک رہے ۔ اور گرفتار ہوئے۔ ان پر شدید تشدد کیا گیا، جس کے اثرات ان کے دماغ پر باقی پوری عمر رہے۔ تاہم وہ پوری عمر کامریڈ ہی رہے۔ شاہد حسین صحافی اور دانشور تھے۔ انہوں نے 70 کے عشرے میں بعض اہم سیاسی موضوعات پر اچھے مضامین لکھے جس میں سیکیولرازم کیا اور فسطائیت کیا ہے شامل ہیں۔ یہ مضامین ہم نے سیاسی تعلیم کے نام سے سندھی میں شایع شدہ کتاب میں شامل کئے۔ حال ہی میں تاج مری نے اس کتاب کا نیا ایڈیشن شائع کیا ہے۔
انہوں نے کئی لوگوں کو صحافت سکھائی، لیکن صرف عزیز سنگھور کو ہی اپنا شاگرد مانتے تھے۔ انہوں نے کئی لوگوں کو روزگار بھی دلایا۔
شاہد نے چند سال پہلے اپنی یاداشتوں پر مشتمل دو کتابیں بھی لکھی جو دوستوں میں بہت مقبول ہوئیں ۔ انہوں نے دی مسلم (اسلام آباد)، بلوچستان ٹائیمز (کوئٹہ) ، بزنیس ریکارڈر، دی نیوز میں کام کیا۔ وہ طویل عرصے تک دی نیوز کی انویسٹیگیشن ٹیم میں شامل رہے۔ صحت، ماحولیات، تعلیم، سیاسی معاشیات ان کے پسندیدہ موضوع تھے۔ انہوں نے بعض غیر ملکی جرائد میں فری لانس رپورٹنگ کی۔
شاہد حسین نے میرے ساتھ تھر، میرپورخاص اور دیگر اضلاع کا صھافت کے حوالے سے دورہ کیا۔ وہ ایک اچھے صحافی تھے جنہوں نے ہمیشہ معروضی صحافت کی، اور اپنے کردار پر کبھی داغ آنے نہیں دیا۔
کچھ عرصہ سوویت فرینڈشپ ہائوس میں بھی کام کیا۔
آخر تک وہ فری لانس کرتے رہے۔
پریس کلب میں آتے تھے تو ہمیشہ ان کے گرد چاہنے والوں کے گھیرے میں رہتے تھے۔ ان کی دلچسپ باتیں، زندگی کے تجربات سے سب دوست محظوظ ہوتے تھے۔ وہ بڑے معصومانہ انداز میں بہت کچھ بتاتے تھے۔
چند ہفتے قبل وہ کینیڈا سے واپس آئے تھے، جہاں وہ اپنے بیٹے کے پاس گئے تھے۔ وہ چار ماہ تک کینیڈا میں رہے۔ واپس آئے تو ان کی طبیعت خراب رہنے لگی تھی۔
وہ ہنسی مذاق میں کہتے تھے کہ وہ ڈاکٹر ہارون کے آخری زندہ مریض ہیں۔ اور بھی کہ اب تو ہارون صاحب خود بیمار ہیں، تو کس سے علا ج کرائوںَ
شاہد کا یہ معمول تھا کہ وہ صبح سویرے مجھ سمیت کسی نہ کسی دوست کو فون کر کے پوچھتے تھے کہ تم پریس کلب آئو گے؟ بھلے خود کو نہ آنا ہو۔ پھر کہتے تھے کہ میں نہیں آئونگا۔ یہاں تک کہ ایک دو مرتبہ مجھے حیدرآباد سے بلا لیا تھا۔
ابھی کل شام ہی ہم پریس کلب میں بیٹھے ان سے گپ شپ کر رہے تھے۔ ان کو بولنے میں بڑی دقت ہورہی تھی۔
آج شام ڈاکٹر توصیف کو فون پر کہا کہ وہ پریس کلب نہیں آئیں گے۔ رات ساڑھے نو بجے اشرف خان نے یہ افسوسناک خبر فون پر دی کہ شاہد حسین اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ اب شاہد حسین کبھی بھی پریس کلب نہیں آئیں گے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔