آخری سفر ۔ ماہ گل بلوچ

390

آخری سفر

تحریر: ماہ گل بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ

سنہری صبح بھیگ رہی تھی، صبح کا نارنجی سورج طلوع ہو رہا تھا، نارنجی سورج کی شعائیں ہر طرف پھیل رہی تھیں۔

وہ اپنے کمرے میں جلدی جلدی بیگ پیک کرنے میں مصروف تھی۔ جب بیگ پیک کرنے کا کام مکمل ہوا تو پھر وہ اپنی پانچ سال کی بیٹی کی جانب بڑھی جو ہر شے سے بے فکر گہری نیند سو رہی تھی۔ اس نے اپنی بیٹی کو صبح کی گہری نیند سے جگایا۔ جب اس کی بادامی آنکھوں، چمکتی جلد والی شہزادی نیند سے جاگی تو اس نے جلدی سے اسے تیار کیا۔ ناشتہ کروایا اور پھر نیلے رنگ کی بلوچی کام دار والا لباس پہنایا۔ ماں نے بھی اپنی تیاری مکمل کی، لال رنگ کا پرس کندھے پہ لیا۔ دونوں ماں بیٹی تیار ہو کر اپنے سفر کے لیے گھر سے نکلے۔

راستے میں بیٹی نے ماں سے شکوہ کرتے ہوئے کہا، امی آپ کو معلوم ہے مجھے گلابی رنگ بہت پسند ہے، پھر بھی آپ نے نیلے رنگ کے کپڑے پہنائے ہیں، کیا آپ کو نہیں معلوم کہ نیلا رنگ لڑکوں کے لیے ہوتا ہے؟

امی نے مسکرا کر بیٹی کی طرف دیکھا اور کہنے لگی، بیٹا! لڑکوں اور لڑکیوں کے کپڑوں کا کوئی مخصوص رنگ نہیں ہوتا۔ ہر رنگ کے کپڑے لڑکے اور لڑکیوں کو پرکشش بناتے ہیں اور تم تو میرے لیے میرا بیٹا اور میری بیٹی دونوں ہی ہو۔

دونوں کی بات یہاں ختم ہوئی اور دونوں کچھ ہی دور چلتے چلتے مسافر بس تک پہنچے۔ بس میں سوار ہو کر ماں نے بیٹی کو اپنے پاس بٹھا لیا۔ بس منزل کی طرف رواں ہوئی اور سفر شروع ہوگیا۔

ایئرکنڈیشن بس اپنی منزل کی جانب رواں تھی۔ آہستہ آہستہ بس کھلی سڑک پہ تیز دوڑنے لگی۔ وہ بس کے کھڑکی کے قریب والی سیٹ پہ بیھٹی بس سے باہر کے مناظر دیکھ رہی تھی۔ اچھے برے حادثاتی راستوں پہ بس کبھی آہستہ تو کبھی تیز دوڑی چلی جا رہی تھی۔ اس نے اپنی بیٹی کو دیکھا جو اس کی گود میں سر رکھے سفر کی تھکن کے سبب سو رہی تھی۔ اتنے میں ایک خیال کے تحت اس نے کندھے پر سے پرس اتارا، اس میں سے اپنی نوٹ بک نکالی اور اس نوٹ بک میں لکھی ہوئی اپنی تحریر کو پڑھنے لگی۔ اس نے وہ تحریر (آرٹیکل) کچھ یوں لکھا تھا؛

“یہ زندگی ایک سفر ہے اور جب تک سفر کی کوئی منزل نہ ہو تب تک مسافر اپنے سفر سے لطف اندوز نہیں ہو پاتا۔ اگر زندگی کے سفر کی کوئی منزل یعنی زندگی کا کوئی مقصد اور حصولِ مقصد کا عزم نہ ہو اور زندگی صرف نارمل کھانے، پینے اور سونے والی زندگی ہو تو زندگی سے لطف اندوز ہونا ناممکن ہے۔ بے مقصد زندگی میں انسان زندہ لاش کی مانند ہوتا ہے۔

اکثر مسافروں کی منزلیں اور منزلوں کو پانے والے راستے الگ ہوتے ہیں، اگر خوش قسمتی یہ ہو کہ منزل بھی ایک ہی ہو راستے بھی ایک ہی ہوں اور مسافر بھی ہم خیال ہوں تو ہمت اور طاقت بہت بڑھ جاتی ہے اور سفر بھی ایسا جس میں زیادہ سامان کی ضرورت نہ ہو، ویسے بھی کم سامان سفر آسان کرتا ہے۔ سفر میں ہمین چاہیے کہ ہم منزل مسافروں کے لیے آسانیاں پیدا کریں تاکہ ہمارا سفر بھی خوش گوار ہو۔ سمندر سے بھی گہری سوچ رکھیں تاکہ منزل تک پہنچنے کا آپ کا عزم پورا ہوجائے اور آپ تک پہنچتے پہنچتے آپ کے دشمن ڈوب کے مر جائیں۔

دنیا میں تین قسم کے لوگ ہوتے ہیں؛ ایک وہ جو بار بار تجربے کرتے ہیں اور یوں تجربوں سے سیکھ لیتے ہیں۔ دوسرے وہ لوگ جو ایک آدھ تجربے سے سیکھ لیتے ہیں اور اپنی زندگی کی سمت بدل دیتے ہیں۔ تیسرے وہ لوگ جو دوسروں کے کیے گئے تجربوں سے سیکھتے ہیں اور اپنی زندگی میں لطف اندوز رہتے ہیں۔

زندگی میں تجربوں سے سبق ملتے ہیں۔ ہر انسان کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ حصولِ تجربوں کے مطابق زندگی میں آگے بڑھا جائے۔ زندگی کے اس سفر میں مرد اور عورت یہ دو جنس کے لوگ ہمارے ہم مسافر ہوتے ہیں ۔مرد کی نسبت عورت چاہے جتنے بھی صیحیح تجربے اپنی زندگی اور دوسروں کی زندگیوں سے حاصل کرے اور تجروں کے ذریعے اپنی زندگی میں آگے بڑھنا چاہے لیکن اکثر عورت ہی معاشرے کے رسم و رواج کے ملبے تلے اپنے آگے بڑھنے کے جذبے کے ساتھ دبی رہ جاتی ہے۔ عورت بھی تو انسان ہے، اسے بھی حق ہے کہ اپنی زندگی کا ایک مقصد بنائے اور اسی مقصد کے حصول کے لیے جدوجہد کرے۔ عورت بھی یہ چاہتی ہے کہ قوم و معاشرے اور اس دنیا سے رخصت ہونے یعنی مرنے کے بعد بھی اس کا نام ہمیشہ زندہ رہے۔ جو صلاحیتں عورت میں ہوتی ہیں، اگر ان میں سے کوئی ایک صلاحیت بھی وہ بنی نوع انسان کو فائدہ پہنچانے کے لیے استعمال کرے، چاہے وہ صلاحیت تحریر لکھنے کی ہو، اگر آپ کی لکھی اچھی تحریر سے ملت کے مقدر کو فائدہ پہنچ رہا ہے اور آپ کی قوم اس طرح ترقی کرتی ہے تو آپ فائدہ مند اعمال کرنا نہ روکیں، ملت کے روشن مقدر کا ستارہ بن جائیں۔ بلوچ قوم ایک تاریخی قوم ہے، بلوچ قوم کو چاہیے کہ اس جدید دور میں اپنی عورتوں کو آگے بڑھنے سے نہ روکیں۔

ہمیں اپنی زندگی یہ سوچ کر بھی گزارنی چاہیے کہ جو وقت اس وقت ہمارے ہاتھ میں ہے، یہ ہمارا آخری سفر بھی ہو سکتا۔ اگلے ہی پل زندگی کیسا موڑ لے، کوئی نہیں جانتا، کوئی گاڑی کب ہمیں اپنا لقمہ بنا دے، اچانک سے کسی کھائی میں گر جانے سے یا کرنٹ لگنے سے کسی بھی وقت موت ہمیں آ پکڑ سکتی ہے۔

اسی لیے زندگی کے ہر لمحے کو آخری لمحہ سمجھ کر اپنے ہم مسافروں اور قوم کی ترقی کے لیے چاہے چھوٹے اعمال یعنی اپنی تحریوں سے ہی سہی، اپنی قوم کے لیے اپنی سوج و فکر کا مظاہرہ کریں۔”

اپنی لکھی ہوئی پوری تحریر پڑھنے کے بعد اس نے اپنی نوٹ بک بند کر دی۔ وہ اپنی لکھی ہوئی تحریر کو پوری دنیا اور قوم کے سامنے پیش کرنا چاہتی تھی۔ اس نے اس سفر کے ساتھ تحریر لکھنے کی اپنی صلاحت نہ روکنے کا عزم کیا۔ اگر اپنی اور اپنی قوم کی فلاح و بہبود کے لیے دہلیز پار کر کے کئی عملی کام سر انجام نہیں دے سکتی تو کم ازکم اپنے قلم کو رکا رہنے نہیں دے گی۔ چاہے سامنے اس کے سامنے کتنی دیواریں کھڑی کر دی جائیں، چوری چھپے ہی سہی، وہ اپنے قلم کے ذریعے آنے والی ہر دیوار کو پار کرے گی۔

کئی گھنٹوں بعد بس کا سفر ختم ہوا تو وہ اپنی بیٹی کے ساتھ ٹھک ٹھک بس کی سڑھیاں اتری۔ اس وقت اسے جہاں جانا تھا، اسی طرف رخ کر کے وہ اپنی بیٹی کا ہاتھ پکڑ کر چلنے لگی۔ چڑھتے سورج کے وقت اس نے زندگی میں آگے بڑھنے کا عزم کیا تھا۔ ڈھلتا ڈوبتا سورج اس کی ساری ناامیدیوں اور معاشرے کے ڈر کو ساتھ لے ڈوبا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔