یوکرین جنگ: 20 ہزار سے زائد افراد اپاہج

162

یوکرین کے فوجیوں کے علاج کے لئے مخصوص ہسپتال کے باہر چند افراد پر مبنی ایک ٹولی کبھی سگریٹ کے ٹکڑوں کا تبادلہ کرتی ہے اور کبھی جنگ کے بارے میں اپنی کہانیاں دوسروں کو سناتی ہے۔ کبھی یہ کہانیاں عام سے انداز میں سنائی جاتی ہیں اور کبھی سنانے والے کے لہجے میں اس تکلیف کی تلخی ہوتی ہے، جو اس نے میدان جنگ میں اس وقت برداشت کی، جب اسے اپنی ٹانگ یا بازو سے محروم ہونا پڑا ۔

ان میں کچھ ایسے بھی ہیں، جنہیں وہ لمحہ یاد ہے، جب وہ کسی اینٹی ٹینک بارودی سرنگ سے ٹکرائے یا آسمان سے گرنے والے بم یا میزائل یا شیل کی زد میں آئے ۔ کئی ایسے ہیں، جن کی یادداشت میں ایسے کسی واقعے کی بہت سی جزئیات موجود نہیں ۔

ایک یوکرینی فوجی ویٹالیے بلئیک کا کمزور جسم زخموں کے نشانات سے اٹا پڑا ہے۔ ان کی ٹانگ گھٹنے تک کاٹ دی گئی ہے۔ چھ ہفتے تک کوما میں رہنے کے دوران انہیں دس بار پیچیدہ سرجری کے عمل سے گزرنا پڑا ۔ اس میں ان کے جبڑے، ہاتھ، اور ایڑھی کی سرجری بھی شامل تھی۔ ویٹالیئے بلئیک کی گاڑی بائیس اپریل کو ایک اینٹی ٹینک بارودی سرنگ کی زد میں آگئی تھی ۔

وہ کہتے ہیں، ‘میں جب سو کر اٹھا ، تو مجھے لگا کہ میں موت کے بعد کسی دوسری دنیا میں زندہ ہوا ہوں’۔

یوکرین اس وقت بیس ہزار سے زائد اپاہج ہو جانے والے افراد کے مستقبل کے لئے فکر مند ہے۔ ان میں سے کئی فوجی محاذ جنگ پر براہ راست لڑنے والے دستوں میں شامل رہنے کی وجہ سے کسی نہ کسی ذہنی ٹروما کا بھی شکار ہیں۔ یورپ کے کسی ملک کو پہلی عالمی جنگ کے بعد پہلی مرتبہ ایسی کسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

میخائیلو یورچوک یوکرین کی فوج میں ایک پیرا ٹروپر تھے۔ وہ جنگ کے ابتدائی ہفتوں میں ازیئیم شہر کے قریب زخمی ہو ئے تھے۔ ان کے ساتھی انہیں سیڑھی پر لٹا کر ، کئی گھنٹوں پیدل چلنے کے بعد کسی ہسپتال تک پہنچانے میں کامیاب ہوئے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس وقت وہ صرف یہ سوچ رہے تھے کہ گرینیڈ سے زندگی کو ختم کر دیں۔ ایک پیرا میڈک نے اس لمحے ان کے سرہانے بیٹھ کر ان کا ہاتھ تھامے رکھا ۔۔ اور اس وقت تک ان کے قریب سے نہ اٹھے، جب تک کہ وہ بےہوش نہ ہو گئے ۔

جب انتہائی نگہداشت کے یونٹ میں ان کی آنکھ کھلی، تو بھی انہوں نے اس پیرا میڈک کو اپنے پاس پایا۔

میخائیلو یورچوک نے پیرا میڈک کا شکریہ ادا کیا ۔ تو پیرا میڈک نے انہیں بتایا کہ اسے خدشہ تھا کہ وہ واقعی گرینیڈ کی پن نکال کر اپنا خاتمہ کر لیں گے۔

میخائیلو یورچوک کا بایاں بازو کہنی کے نیچے سے اور ان کی دائیں ٹانگ گھٹنے کے نیچے سے اڑ چکے تھے ۔

اٹھارہ ماہ کے دورانیے میں ، یورچوک نے اپنی ذہنی اور جسمانی بحالی کا سفر بہت مثبت انداز سے طے کیا ہے ۔ بظاہر کوئی فلمی کہانی لگتی ہے، لیکن وہ اسی بحالی کے مرکز میں ایک ایسی خاتون رضا کار سے ملے، جو اب ان کی بیوی ہیں۔ اب وہ اپنی شیر خوار بیٹی کو جھولا جھلانے اور کسی ہچکچاہٹ کے بغیر اسے چہل قدمی کے لئے لے جانے میں کوئی دقت محسوس نہیں کرتے۔ ان کا مصنوعی ہاتھ اور مصنوعی ٹانگ کالے سیاہ رنگ کے ہیں۔

یورچوک اب ہسپتال میں آنے والے دوسرے زخمی فوجیوں کو ہمت دلاتے ہیں اور انہیں یقین دہانی کرواتے ہیں کہ وہ اپنے زخموں سے صحت یاب ہو جائیں گے اور اپنی جسمانی معذوری کے ساتھ بھی جینا اور آگے بڑھنا سیکھ جائیں گے۔

یوکرین جنگ کے نفسیاتی اثرات پر نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسی ہی حوصلہ افزائی یوکرین سمیت دنیا کے دیگر حصوں میں ان افراد کو بھی درکار ہے، جو جنگوں اور تنازعات میں اپنے جسمانی اعضاٗ سے محروم ہوئے ہیں۔

ڈاکٹر ایملی مے ہیو اور امپیریل کالج ، لندن میں دھماکوں کے نتیجے میں زخمی ہونے والوں کے ساتھ کام کرتی ہیں اورطبی تاریخ کی ماہر بھی سمجھی جاتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ایسے واقعات میں زخمی ہونے والوں کا پورا جسمانی نظام دوبارہ سے اپنے ماحول سے مطابقت حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے، انہیں اپنے وزن کو اٹھانے کے لئے نئے سرے سے کوشش کرنا ہوتی ہے، یہ ایک پیچیدہ ایڈجسٹمنٹ ہوتی ہے، جو انہیں کسی دوسرے انسان کی مدد سے کرنا سیکھنی پڑتی ہے۔

یوکرینی فوج کے اپاہج ہو جانے والے زخمیوں کی بحالی کے لئے قائم ہسپتال سپر ہیومنز سینٹر (Superhumans center)کی سربراہ اولہا رود نیوا کہتی ہیں کہ یوکرین میں ایسے ڈاکٹرز کی تعداد کم ہے، جو مصنوعی اعضا لگانے اور ان کے ساتھ مریض کو ہم آہنگ ہونے میں مدد دے سکیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جنگ سے قبل یوکرین میں صرف پانچ افراد ایسے تھے، جو ہاتھ یا بازو سے محروم ہونے والوں کو مصنوعی اعضا کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کے لئے باقاعدہ تربیت یافتہ تھے۔ معمول کے حالات میں ہاتھ پاؤں سے محروم لوگوں کے لیے ایسی مہارت رکھنے والوں کی ضرورت کم ہوتی ہے،کیونکہ لوگ ٹانگ اور پاؤں سے محروم تو ذیابیطس کی زیادتی سے بھی ہو جاتے ہیں۔

رود نیوا کہتی ہیں کہ یوکرین میں جنگ شروع ہونے کے بعد ایک اندازے کے مطابق کم از کم بیس ہزار افراد کو جسم کے کسی ایک عضو کے بغیر زندگی گزارنا سیکھنا پڑ رہا ہے ۔ حکومت یہ نہیں بتا رہی کہ ان میں سے کتنے فوجی اور کتنے سویلین ہیں۔ لیکن طویل عرصے تک چلنے والی جنگوں میں عام طور پر دھماکہ خیز مواد سے ہونے والے جسمانی نقصانات زیادہ ہوتے ہیں۔ لیکن رودنیوا کو تسلی ہے کہ وہ ملک جو یوکرین کو فوجی مدد نہیں بھی دینا چاہتے، وہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر یوکرین کی مدد کو تیار ہیں۔

ڈاکٹر ایملی مے ہیو ، جنہوں نے جنگوں میں زخمی ہونے اور اپنے اعضا سے محروم ہوجانے والے سینکڑوں فوجیوں سے بات کی ہے، کہتی ہیں کہ اپنے جسمانی اعضا سے محروم ہو جانے والوں کے لئے سب سے مشکل کام اپنے زخم کے درد اور مصنوعی اعضا پہننے کے درد کے ساتھ زندہ رہنا ہوتا ہے۔ کئی ایسے بھی ہیں، جن کو اپنی جسمانی ساخت میں تبدیلی اور کاسمیٹک سرجری کے مسلسل عمل کے دوران نئے سرے سے منفی سوچ ختم کرنے اور زندگی کو مثبت انداز سے اختیار کرنا سیکھنا پڑتا ہے ۔

وہ کہتی ہیں کہ بلاسٹ انجریز سے نبرد آزما زخمیوں کو کئی نفسیاتی مسائل سے بھی ایک ساتھ جنگ کرنی ہوتی ہے۔ اپاہج ہونے کے إحساس اور اپنی ظاہری ہئیت کو ٹھیک کرنے کے لئے انہیں کاسمیٹک سرجری کی بھی ویسی ہی فوری ضرورت ہے، جیسی جسمانی سرجری کی تاکہ وہ معاشرے سے مسترد نہ کر دیئے جائیں۔

ویٹالیے بلئیک ، وہ یوکرینی سپاہی، جس کی گاڑی ایک بارودی سرنگ سے ٹکرائی تھی، کہتے ہیں کہ انہیں اب بھی کئی بار محسوس ہوتا ہے کہ وہ محاذ جنگ پر ہیں۔

“جیسے میں اکیلا ہسپتال کے بستر پر لیٹا ہوں اور ایسے لوگ میرے پاس آتے ہیں، جنہیں میں نہیں جانتا۔ مجھے لگتا ہے کہ وہ روسی فوجی ہیں اور ابھی وہ مجھ پر سامنے سے پستولوں اور رائفلز سے فائر کھول دیں گے۔ پھر انہیں لگتا ہے کہ میں تو مر ہی نہیں رہا اور ان کا اسلحہ ختم ہو رہا ہے، تو میں ان کا منہ چڑاتا ہوں اور ہنس پڑتا ہوں”