بلوچ نیشنل موومنٹ کے چیئرمین ڈاکٹرنسیم بلوچ نے کہا ہے کہ 11 اگست بلوچ قومی تاریخ میں ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس دن بلوچستان برطانوی سامراج کی طویل قبضہ گیریت سے آزاد ہوا۔ 1839سے لے کر 1947 تک بلوچ قوم نے برطانوی قبضے کے خلاف طویل اور خون آشام جنگیں لڑیں، قانونی چارہ جوئی کی اور سیاست کے میدان میں بھی سرگرم عمل رہے ہیں۔ طویل جنگوں، بے شمار اور انمول قربانیوں کے بعدبلوچ قوم نے 11 اگست کو برطانوی قبضے سے آزادی حاصل کرلی۔
ڈاکٹر نسیم بلو چ نے کہا کہ برطانوی راج کے دوران بلوچستان اور نیپال کا اسٹیٹس برطانوی ہندوستان کے دیگر ریاستوں سے الگ اور ممتاز تھا۔ اس لیے تقسیم ہند کے لیے جاری عمل کے دوران 4 اگست کو وائسرائے ہند لارڈ ماؤنٹ بیٹن، محمدعلی جناح اور خان قلات احمد یار خان نے دہلی میں ایک معاہدہ پر دستخط کیے۔ اس کی رو سے بلوچستان کی آزادی تسلیم کی گئی لیکن برطانوی آشیرباد سے پاکستان کے نام نہاد بانی اور ریاست قلات کے پیشہ ور وکیل محمد علی جناح نے نوآزاد بلوچستان کے خلاف سازشوں کے جال بننا شروع کیے۔ آزاد بلوچستان کے دونوں ایوانوں کی جانب سے الحاق کو مسترد کرنے کے بعد محمد علی جناح نے خاران، مکران اور لسبیلہ کی غیر قانونی الحاق کو قبول کیا گیا جوریاست قلات کے حصے تھے حالانکہ ریاست قلات اور برطانوی حکومت کے درمیان باہمی معاہدوں کی رو سے انخلا کے بعد مکران، لسبیلہ اور خاران کے علاوہ مستجار علاقے آزادی ہند ایکٹ 1935 کی رو سے دوبارہ ریاست قلا ت کو ملنے تھے۔ پاکستان نے تمام انسانی تاریخ کا بددیانتی کرکے ریاست کے ان علاقوں کو ریاست (ریاست قلات) کی منشا کے بغیر پاکستان میں ضم کردیا۔ دراصل حالیہ غلامی کا یہیں سے آغاز ہوا۔
انہوں نے کہا بلوچستان تاریخی طور پر کبھی ہندوستان کا حصہ رہا ہے اور نہ ہی برطانوی قبضہ ہمیں برطانوی ہندوستان کا حصہ بننے پر مجبور کرسکا لیکن مذہب کے نام پر آگ بھڑکا کر برطانیہ نے ہندوستان کی تقسیم کی راہ ہموار کی حالانکہ اس کے تمام جیئد علما نے جمیعت علما ہند کی پلیٹ فارم پر تقسیم کی زبردست مخالفت کی اور اسے مسلمانوں کے لیے خودکشی قرار دیا۔ لیکن کانگریس قیادت کی مصلحت کوشی اور برطانوی سازش کامیاب ہوئی، اور ہندوستان تقسیم ہوا۔ اس کا خمیازہ نو مہینے بعد بلوچستان کو بھگتنا پڑا۔ مغربی طاقتوں کو ایک چوکیدار تو مل گیالیکن مذہب کے نام پر بنا یہ چوکیدار نہ صرف بلوچ بلکہ خطے اورپوری دنیا کے لیے ایک وبال جان بن گیا۔ آج دنیا کو پاکستان کی مذہبی جنونی فوج کے ”اسلامی“ جوہری ہتھیاروں، دہشت گرد کے مرکز و منبع، دہشت گردی کے ایکسپورٹ سے براہ راست خطرہ ہے ۔
ڈاکٹر نسیم بلوچ نے کہا کہ قبضے کے بعد بلوچ قوم نے مزاحمت کا راستہ چنا اور آج بھی اس پر قائم ہے۔ گوکہ مزاحمت کے تسلسل میں نشیب و فراز آئے لیکن بلوچ قوم نے کبھی بھی اور کسی بھی قیمت پر دشمن کے سامنے سرتسلیم خم نہیں کیا اور آج بلوچ قومی تاریخی کا توانا ترین مزاحمتی تحریک چل رہاہے۔ یہ منزل کے حصول تک اسی طرح رواں دواں رہے گا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ دنیا کو ادراک کرنا چاہئے کہ بلوچ قومی تحریک تاریخی حقائق کی روشنی میں ایک جائز تحریک ہے اور بین الاقوامی قوانین کی رو سے آگے بڑھ رہی ہے جبکہ پاکستان ایک وقتی ضرورت تھا۔ اسی لیے اس غیر فطری ریاست (پاکستان) کی موجودگی میں خطے میں کبھی امن و پائیدار ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا بلکہ خطے میں امن کی راہیں آزاد بلوچستان سے ہوکر گزرتی ہیں۔ یہ نوشتہ دیوارہے۔