‏نواب اکبر بگٹی فکرِ مزاحمت کی حتمی دیوار ہے۔ دْرپشان بلوچ

300

‏بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی چیئرمین درپشان بلوچ نے شہید نواب اکبر خان بگٹی کی سترھویں برسی کے موقعے پر جاری کردہ اپنے ایک بیان میں نواب اکبر خان بگٹی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ بلوچوں کے خلاف ریاستی جابرانہ پالیسیوں کو دیکھ کر نواب صاحب کو اس بات کا اندازہ ہو گیا تھا کہ پاکستان بلوچوں کو غلام بناکر ان کے وسائل اور اختیار چھین لینا چاہتا ہے، قبضہ گیر کے اس نفسیات کو سمجھتے ہوئے انہوں نے قومی مزاحمت میں حصہ لیکر اپنی شہادت تک اس میں شریک رہے اور تحریک کو ایک راہ و سمت دی اور بلوچ نوجوانوں پر واضح کر دیا کہ پاکستانی فیڈریشن، پارلیمنٹ اور نام نہاد جمہوریت میں بلوچوں کیلئے کوئی جگہ نہیں بلکہ اس قبضے کے خلاف مزاحمت اور جدوجہد ہی حقیقی اور واحد راستہ ہے۔

‏چیئرمین درپشان بلوچ نے کہا کہ نواب اکبر خان بگٹی کو بطور ایک قبائلی سردار اور قدآور شخصیات کسی بھی چیز کی کمی کا سامنا نہیں تھا بلکہ انہیں اس بات کا احساس ہو چکا تھا کہ بلوچوں کے قومی مفادات پاکستانی قبضے میں نہیں بلکہ اس کے خلاف مزاحمت میں ہے اور نوجوانوں کو اس مزاحمت کی راہ دیکھانے میں ہے، اس لیے انہوں نے پیراں سالی میں پہاڑوں کو اپنا مسکن بنایا اور جدوجہد کی راہ میں شہادت تک ثابت قدم رہے۔ نواب بگٹی کی جدوجہد اور شہادت بلوچستان میں نام نہاد پارلیمانی سیاست پر آخری مہرہ ثابت ہوا ، اس کے بعد جنہوں نے بھی پارلیمانی سیاست کی راہ لی ہے انہوں نے قومی جدوجہد اور بلوچوں کے خلاف ریاستی جبر میں باقاعدہ طور پر حصہ لیا ہے اور اپنے ذاتی مفادات کیلئے قومی مفادات کا سودا لگایا ہے اور بلوچوں کے وسائل سودا کرنے سے بلوچ سیاسی کارکنان کی گرفتاری اور مسخ شدہ لاش پھینکنے میں بطور معاون کردار ادا کیا ہے۔ آزادی کی جدوجہد میں سیاسی واقعات کا ہمیشہ سے ایک اہم کردار رہا ہے جس کی بدولت تحریک کی شدت میں اضافہ ہوتا ہے، بلوچ قومی تحریک میں شہید نواب کی شہادت کو وہی عظیم مقام حاصل ہے جب بلوچ قوم کی ان کی غلام حیثیت کا احساس دیا گیا۔ نواب صاحب نے قومی آزادی کی جدوجہد میں شامل ہوکر نا صرف نوجوانوں بلکہ بلوچ قوم کے تمام طبقائے فکر سے تعلق رکھنے والے افراد کو حقیقی راہ کی نشاندہی کرائی اور انہیں واضح کر دیا کہ قومی جدوجہد اور آزادی کے بغیر بلوچوں کیلئے کوئی بھی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ قومی جدوجہد اور آزادی کے بغیر بلوچوں کیلئے قومی غلامی رہ جاتا ہے جو نواب صاحب کو قبول نہیں تھا اس لیے انہوں نے تحریک میں حصہ لینے کو اہمیت دی۔

‏بیان کے آخر میں چیئرمین درپشان بلوچ نے کہا کہ آج یہ بات نظریاتی طور پر مطالعہ کرنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے کہ نواب صاحب نے پیران سالی میں اس راہ کا چناؤ کیوں کیا؟ یقینا نواب صاحب قومی غلامی کے اثرات اور تجربات سے واقف ہو چکے تھے اور وہ آنے والے نسلوں کو اس سے نکالنا چاہتے تھے اور آج ہمیں بطور قوم جن مسائل اور مشکلات کا سامنا ہے یقینا یہ قومی غلامی کی دین ہیں اس لیے بلوچوں کو چاہیے کہ وہ اس غلامی کے خلاف نواب صاحب کے فلسفے پر عمل کرتے ہوئے جدوجہد میں حصہ لیکر اپنی اپنی زمہ داریوں کو سرانجام دینے کی کوشش کریں۔