گوادر یونیورسٹی لاہور، وضاحت کا متقاضی ۔ ٹی بی پی فیچر رپورٹ

555

گوادر یونیورسٹی لاہور، وضاحت کا متقاضی
ٹی بی پی فیچر رپورٹ
تحریر: زارین بلوچ

حیران کن طور پر پاکستان کی قومی اسمبلی نے تجویز کردہ قرارداد، جس میں پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں پاک چائنہ گوادر یونیورسٹی کے قیام کو منظور کرلیا ہے۔ اس اقدام نے بیشتر افراد کو حیران کر رکھا ہے اور سوشل میڈیا پر گرما گرم بحث چھیڑ دی ہے، کیونکہ یونیورسٹی کا نام تو بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر سے منسوب ہے، لیکن اسے تعمیر لاہور میں کیا جانا ہے۔ اس بل کی منظوری نے پاکستانی ریاست کے فیصلہ سازی اور ترجیحات پر بہت سے لوگوں کو سوال اٹھانے پر مجبور کردیا ہے۔ بل کی منظوری دینے والے قانون سازوں نے عوامی غم و غصّے اور تنقید کو ہوا دیتے ہوئے اس انتخاب کیلئے کوئی دلیل تک فراہم نہیں کیا۔

خبر سماجی میڈیا میں تیزی سے پہل گئی ہے، بلوچستان سمیت خاص طور پر مکران کے لوگوں نے گوادر کے بجائے لاہور میں گوادر یونیورسٹی کے قیام کو منافقت قرار دیا ہے۔ اس واقعے نے ملک میں ترچھی ترجیحات اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کی مزید عکاسی کی۔

واضح رہے اس بل کی منظوری کا عمل انتہائی متنازعہ تھا، اجلاس کے دوران مختصراً ایک ہی گھنٹے میں 29 بل منظور کیے گئے، جہاں حکمران اتحاد کے صرف 15 ارکان ہی موجود تھے، اور اپوزیشن کا کوئی بھی رکن موجود نہیں تھا۔  ان بلوں میں سے 24 نئی یونیورسٹیوں اور تعلیمی اداروں کے قیام سے متعلق تھے، جن میں پاک چائنہ گوادر یونیورسٹی بھی شامل ہے۔  مزید چونکا دینے والی بات یہ ہے کہ ان میں سے زیادہ تر بلوں کو بغیر کسی مناسب جانچ پڑتال یا متعلقہ کمیٹیوں کو بھیجے جانے کے منظور کیا گیا۔

زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد اور گروہوں نے اس قرارداد کی‌ منظوری کے فیصلے پر ناپسندی اور تحفظات کا اظہار کیا۔ گوادر کے مقامی باشندوں نے اس امر کا‌ اظہار کیا کے لاہور میں یونیورسٹی کا قیام ان کے علاقے سے مکمل نا انصافی ہے اور یہ دلیل دی کی چین پاکیستان اقتصادی رہداری کے شروع ہونے سے لیکر آج دن تک کوئی فائدہ نہیں دیکھا۔ مختلف کارکنوں اور ماہرین تعلیم نے گوادر اور بلوچستان‌‌ کے دیگر علاقوں میں پہلے سے ہی تباہ حال تعلیمی نظام پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔

بلوچ انسانی حقوق کے کارکن ڈاکٹر ماہرنگ بلوچ نے متنازعہ بل کی قومی اسمبلی سے منظوری پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے ریاست کو ترقی کے نام پر بلوچستان‌‌ کے وسائل کا استحصال کرنے پر کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔

سماجی رابطے کی سائیٹ پر ایک‌ ٹویٹ میں ان‌ کا کہنا تھا کہ ریاستی نظام کے آلہ کار بلوچستان کے وسائل کو لوٹ کر پنجاب کی خدمت کرنے کیلئے کام کرتے ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ ہماری شناخت بحران کا شکار ہے۔ نام نہاد ترقی کے نام پر بلوچ وسائل کے ناجائز استحصال کے خلاف جدوجہد جاری رکھنا بہت ضروری ہے۔

ماہر معاشیات اور آئی ایم ایف کے لیے کام کرنے والی  خاتون مریم ضیا بلوچ نے وسائل کی منصفانہ تقسیم پر زور دیا اور سوال کیا کہ گوادر میں یونیورسٹی کیوں نہیں قائم کی گئی اگر اسے فنڈز فراہم کیے گئے تھے۔

نیشنل پارٹی کے رہنما اور پاکستان کی سینیٹ کے رکن طاہر بزنجو نے خطوں کے درمیان تعلیمی تفاوت کو مدنظر رکھتے ہوئے گوادر میں یونیورسٹی کے قیام پر زور دیا۔

سابق ایم این اے اور نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ کی رہنما بشریٰ گوہر نے گوادر کے بجائے لاہور میں یونیورسٹی بنانے کے فیصلے پر سوال اٹھایا۔

ماہر اقتصادیات عزیر یونس نے اپنے ردعمل میں دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ اس قانون سازی کے بعد ریاست کو یہ نہیں پوچھنا چاہیے کہ ’’بلوچ بغاوت کیوں کررہے ہیں؟‘‘

بلوچ آزادی پسند گروہوں نے عرصہ دارز سے چین پاکستان اقتصادی رہداری کی مخالفت کی ہے، اور اس اقتصادی رہداری کو وہ بلوچستان‌‌ کے وسائل لوٹنے کے لئے “سامراجی” منصوبہ قرار دیتے ہیں۔ آزادی پسند گروہ میگا انفراسٹرکچر منصوبوں کو استحصالی اور بلوچستان کے مفادات کے لیے نقصان دہ سمجھتے ہیں، اور اسٹبلشمنٹ پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ مقامی آبادی کو کوئی خاص فوائد فراہم کیے بغیر ان کے وسائل کا استحصال کر رہی ہے۔ انہی استحصالی منصوبوں کے رد عمل میں انہوں نے بلوچستان اور اس سے باہر چینی مفادات اور بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں پر حملے کرنے کا سہارا لیا ہے۔

نمایاں طور پر بلوچ لبریشن آرمی کی مجید بریگیڈ ان حملوں میں سب سے آگے رہی ہے۔ اپریل 2022 میں ایک خودکش حملے میں مجید بریگیڈ نے جامعہ کراچی کے کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ کے پروفیسرز کو نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں تین چینی ماہرین تعلیم سمیت چار افراد ہلاک ہوئے۔  اس حملے سے چین پاکستان تعلقات پر شدید اثرات مرتب ہوئے، جس سے چینی حکام کی جانب سے چینی شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے کی پاکستانی صلاحیتوں کے حوالے سے گہرا عدم اعتماد پیدا ہوا۔  نتیجتاً چین نے پاکستان کے تمام کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ سے اپنے ماہرین تعلیم کو واپس بلا لیا۔

آزادی کے حامی بلوچ گروہوں اور سیاسی جماعتوں نے طویل عرصے سے پارلیمانی سیاست کے خلاف ایک مستحکم موقف برقرار رکھا ہوا ہے، آزادی پسند اس بات پر زور دیتے ہیں کہ پارلیمان پرست سیاست دان بلوچستان کے استحصال کو جائز قرار دیتے ہوئے محض پنجاب کے مفادات کی خدمت کرتے ہیں۔ جہاں حالیہ قانون سازی ان کے دلائل کی تصدیق کرتی ہے۔قومی اسمبلی میں بلوچستان کے قانون سازوں کی نمایاں موجودگی کے باوجود لاہور میں گوادر کے نام سے یونیورسٹی کے قیام کی منظوری دینے والے بل کو بہت تیزی سے منظور کیا گیا۔ اس پیش رفت نے تجزیہ کاروں کے درمیان اہم خدشات کو جنم دیا ہے، جو بلوچ پارلیمنٹرینز کی اپنے لوگوں کے مفادات کے تحفظ کی صلاحیت پر سوالیہ نشان لگا رہے ہیں، کیونکہ بظاہر وہ بلوچستان کے وسائل کو پنجاب میں یونیورسٹیوں کے قیام کی طرف موڑنے سے نہیں روک سکے۔

واضح رہے، بلوچ اراکین پارلیمنٹ اب مشکل گھڑی میں ہیں، کیونکہ انہیں بلوچستان کے لوگوں کے حقوق اور فلاح و بہبود کے تحفظ کے لیے اپنی صلاحیت کو ثابت کرنا ہے، اور اسی بنیاد پر وہ ماضی میں بھی اکثر پارلیمنٹ کا حصہ بنتے رہے ہیں۔

بغیر کسی واضح دلیل کے لاہور میں گوادر کے نام سے ایک یونیورسٹی کے قیام نے بلوچ عوام کی طرف سے محسوس کی جانے والی نظراندازی اور بیگانگی کے احساس کو مزید تیز کر دیا ہے۔ یہ خطوں کے درمیان ترقی اور مواقع میں مسلسل تفاوت کی ایک واضح یاد دہانی بھی کرتی رہے گی، جس سے بلوچستان کے لوگوں کو اس بڑے فریم ورک میں اپنی جگہ پر سوالیہ نشان پڑ جاتا ہے۔