جبری گمشدگیوں کے خلاف کوئٹہ پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا احتجاجی کیمپ آج 5127 ویں روز جاری رہا۔ اس موقع پر بلوچ وومن فورم کے مرکزی رہنماؤں سلطانہ بلوچ، صبا ایڈوکیٹ اور دیگر نے آکر اظہار یکجہتی کی۔
تنظیم کے وائس چئیرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچ قوم کی سرزمین بلوچستان میں لاپتہ ہونے والے بلوچوں کی تعداد پچپن ہزار سے زاہد تجاوز کر چکی ہے، جبکہ مسخ شدہ لاشوں کی تعداد بیس ہزار سے تجاوز کر چکی ہے ، سپریم کورٹ کے سابقہ چیف جسٹس نے اپنے عبوری حکم میں براہ راست خفیہ ایجنسیوں کے ڈیتھ سکواڈز، ایف سی، حکومت بلوچستان اور وفاقی حکومت بلوچستان میں بلوچوں کو لاپتہ کرنے اور مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی ٹارگٹ کلنگ جبری لاپتہ فرقہ واریت کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کہا کہ کسی بھی ملک میں شہریوں کے جان مال کا تحفظ حکومت دینے میں مکمل ناکام ہوچکی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچستان میں مرکز کی جانب سے فوجی طاقت کے ذریعے دبایا گیا ہے پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق نے بلوچستان میں سیکورٹی اور خفیہ ایجنسیوں کے ہاتھوں جبری گمشدگیوں منظم تشدد انسانی حقوق کے خلاف ورزیوں بلوچستان کی صورت حال میں مزید بگاڑ پیدا ہو گیا ہے اور انسانی حقوق کے حقائق معلوم کرنے والے مشنوں نے اپنے رپورٹ میں ماورائے عدالت ہلاکتوں تشدد گمشدگیوں خفیہ اداروں کی طرف سے دھمکیوں ایزا رسانی اور من مانی حراستوں کے واقعات میں خطرناک حد تک اضافہ پر شدید تشویش کرتے ہوئے شہری علاقوں میں فضائی بمباری کےثبوت بارے میں واقعات پیش کئے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں جبری گمشدگیوں اور مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی نے انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں سمیت اقوام متحدہ یورپی یونین امریکہ کینیڈا کو بھی متوجہ کیا ہے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کو نسل میں متعدد اجلاس میں بلوچستان میں ریاست پاکستان کی جانب سے بلوچ قوم کی نسل کشی بلوچستان میں شہری آبادیوں پر بمباری بڑی نقل مقانی پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔