بلوچ نیشنل موومنٹ کے چیئرمین ڈاکٹر نسیم بلوچ نے کہا نے کہا چین ہمارا بڑا دشمن ہے جو ہماری سرزمین روز بروز اپنے قدم جمانے کی کوشش کر رہا ہے جس میں پاکستان اس کی مدد کر رہا ہے اور وہ اپنے لیے دیگر اتحادی بنانا چاہتے ہیں۔چین ایک بلاک قائم کرنا چاہتا ہے لیکن اس کے پاس اس کا تجربہ ہے اور نہ ہی اس کے طریقہ ہائے کار کو دیکھتے ہوئے دنیا اس کے ساتھ اتحاد کرسکتی ہے۔
ان خیالات کا اظہار انھوں نے بی این ایم زروان ھنکین کے ذمہ داران کے ساتھ ایک نشست میں کیا۔
ڈاکٹرنسیم بلوچ نے کہا خطے میں تبدیلی کے اشارے ہیں لیکن تبدیلی کے ہمیشہ منفی اثرات نہیں ہوتے۔پاکستان کے داخلی حالات روز بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔اس کے معاشی اور سیاسی حالات تنزلی کی طرف جا رہے ہیں۔ سیاسی استحکام کا نام و نشان نہیں اس لیے اس کے تمام ادارے زوال پذیر ہیں۔ ریاست کی کمزوریاں ہمیں یہ مواقع فراہم کرتی ہیں کہ ہم اپنی کارکر دگی کو بہتر کریں۔
انھوں نے کہا جب افغانستان کے حالات تبدیل ہوئے تو یہی تجزیہ کیا گیا کہ جب افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہوگی تو بلوچوں کے لیے حالات خراب ہوں گے لیکن پاکستان کے تجزیہ نگار اور حکمران بلوچ اور بلوچ تحریک کو سمجھ نہیں پا رہے۔بلوچ تحریک کسی بیرونی قوت کی مرہون منت نہیں بلکہ یہ بلوچ قوم کی جائز خواہش کی بنیاد پر ہے کہ وہ آزاد اور باوقار قوم کی طرح رہنا چاہتے ہیں۔ پاکستان کے صاحب اختیاروں کی ناسمجھی ہے کہ گذشتہ 75 سال سے ان کی پالیسوں میں واضح اتار چڑھاؤ دیکھا جاسکتا ہے۔ان کی پالیسوں میں بلوچوں سے متعلق تبدیلی اس بات کا عندیہ ہے کہ بلوچ اس مقام پر موجود ہے کہ پاکستان کے تھنک ٹینکس اپنی حکومت کو ایک مستحکم اور مسلسل پالیسی نہیں دے پا رہے۔یہ قربانی اور ادارتی سیاست کا دین ہے کہ ہم نے اپنی پالیسوں میں تسلسل رکھا ہے اور مستقل مزاجی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔
چیئرمین نے کہا بلوچ قوم کو اپنی جدوجہد میں تسلسل کو برقرا رکھنا ہے ، تحریک آزادی کے کارکنان کو اپنے ہم خیالوں کی تعداد بڑھانے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ جدوجہد مستحکم ہو۔ اور ہمیں اپنی جدوجہد میں استحکامت مظاہرہ کرنا ہوگا۔ہماری استحکامت سے دشمن ہماری آزادی تسلیم کرنے پر مجبور ہوگا۔
انھوں نے کہا ادارتی طرز سیاست ہی ہمارے استحکام کی ضامن ہے۔ بی ایس او آزاد، بی این ایم یا دگر مسلح آزادی پسند تنظیموں نے خود کو ادارتی بنیاد پر مضبوط کرنے پر کام کیا ، جس کے نتیجے میں آج وہ یہاں تک پہنچے ہیں۔
انھوں نے زروان ھنکین کے دوستوں کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے کہا زروان ھنکین کے دوستوں کی کارکردگی اطمینان بخش ہے اور یہ بھی خوش آئند ہے کہ وہ اپنی سرگرمیوں کے بارے میں مرکز کو آگاہ کرتے رہتے ہیں۔ہرکام میں اصلاح کی گنجائش ہمیشہ موجود ہوتی ہے اور ہمیں بہتری کی طرف بڑھنا چاہیے۔
انھوں نے کہا اس پر کوئی شک نہیں کہ بی این ایم اپنے اساس پر قائم ہے مگر بی این ایم طریقہ ہائے کار پر بلوچ تحریک کے اسٹاک ہولڈرز کے سامنے اپنی بات رکھنے کا حق رکھتی ہے۔ اگر ہمیں کبھی محسوس ہوا کہ کوئی عمل تحریک کے مفاد نہیں تو یہ ہمارا حق بنتا ہے کہ ہم اس بارے میں دوسری تنظیموں سے بات کریں لیکن ہم کسی میڈیا پروپیگنڈا کا حصہ نہیں ہوں گے۔ اگر ہم سے غلطی سرزد ہو یا کسی دوسری آرگنائزیشن سے تو ہم نے یہ پالیسی بنائی ہے کہ ہمارا دیگر تنظیموں سے روابط مستحکم رہیں۔ہمیں اطمینان خاطر ہے کہ آج بی این ایم اس مقام پر ہے کہ ہمارے دوسری تنظیموں کے ساتھ روابط ہیں۔
ڈاکٹرنسیم نے کہا تنظیمی ڈسپلن کا تمام اراکین پر یکساں اطلاق ہوتا ہے ، ڈسپلن کی خلاف ورزی پر تادیبی کارروائی بھی تنظیم کے دوستوں کو منظم رکھنے اور ڈسپلن کی یاد دہانی کرانے کے لیے ضروری ہوتا ہے ، یہ ہماری سیاسی تربیت کا بھی حصہ ہونا چاہیے۔
انھوں نے اس نشست میں ذمہ داران کے سوالات کے جوابات میں کہا ہماری جدوجہد ہمہ جہت ہے انسانی حقوق کے اداروں کے سامنے ہم انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں لیکن ہمارا مقصد اپنی قومی آزادی کا حصول ہے اور یہی ہمارا مطالبہ ہے کہ بلوچستان کو ایک آزاد ریاست کی حیثیت سے تسلیم کیا جائے۔اقوام متحدہ کے قوانین میں بھی حق خودارادیت کا ذکر ہے جس کا مطلب آزادی ہی ہے مگر ہم ایک نئے ملک کی بات نہیں کر رہے بلکہ بلوچستان ایک آزاد ملک تھا جس پر پاکستان نے قبضہ کیا تھا اور ہم اس قبضے کے خلاف ہیں۔
ڈاکٹر نسیم بلوچ نے کہا سیشن کے انعقاد سے پہلے دوستوں نے ایک روڈ میپ تیار کیا تھا ۔ جس میں پارٹی کے بیشتر سینئر اراکین کی رائے شامل تھی اور خوش قسمتی سے یہی روڈ میپ جب سیشن میں کونسلران نے پیش کیا تو اسے بھاری اکثریت سے قبول کیا گیا۔اس کے نتیجے میں پارٹی میں کئی اداروں کی بنیادیں رکھی گئیں۔اب ہماری یہی کوشش ہے کہ جب ہم یہ ذمہ داریاں آنے والی قیادت کے سپرد کریں تو ان کے پاس بھی ایک روڈ میپ ہو، ٹیم ہو ، انھیں ازسرنو شروع کرنے کی بجائے ہم سے آگے بڑھنے میں مدد ملے۔
انھوں نے کہا جب ہم بی این ایم کے استحکام اور بہتری کا ذکر کرتے ہیں تو اس کا مطلب بلوچ قومی تحریک کو مضبوط کرنا ہے کیونکہ بی این ایم بلوچ تحریک سے الگ ایک چیز نہیں بی این ایم کو مضبوط کرنے بلوچ قومی تحریک مضبوط ہوگی۔ بی این ایم کی استحکامت کی کوشش گروہی سوچ کا عکس نہیں بلکہ ادارتی اور تنظیمی شعور کا مظہر ہے جس پر ہم زور دیتے ہیں۔ہم نے اب تک مختلف سیکٹرز میں قابل ذکر پیشرفت کیا ہے اور اس کے اثرات تمام سطح پر محسوس کیے جا رہے ہیں لیکن ہمیں ہمیشہ آگے دیکھنا ہے اور ہمہ جہت ترقی کرنی ہے۔ اس کے لیے تمام کارکنان کو کردار ادا کرنا چاہیے اور اس پیشرفت کو رول بیک کرنے کی بجائے آگے ہی بڑھانا ہے۔آج جو تجاویز پیش کی گئیں ان کو ہم سب نے مل کر عملی جامہ پہنانا ہے۔