پنجاب میں بلوچ طلباء اور گوادر یونیورسٹی لاہور
ٹی بی پی اداریہ
پاکستان کے قومی اسمبلی نے نئے یونیورسٹیاں بنانے کے چوبیس بِل ایک ساتھ پاس کئے ہیں، جِن میں پاک-چین گوادر یونیورسٹی بھی شامل ہے، جو لاہور میں بنایا جائے گا۔ بلوچستان میں اس وقت اٹھارہ یونیورسٹیاں ہیں، جو صرف لاہور شہر میں قائم یونیورسٹیوں سے بھی کم ہیں، سب سے قدیم بلوچستان یونیورسٹی شدید مالی بحران کا شکار ہے اور دوسری یونیورسٹیاں بھی مالی اور انتظامی مسائل سے دوچار ہیں۔
بلوچستان کے طلباء تسلسل سے احتجاج کررہے ہیں کہ بلوچستان میں نئی یونیورسٹیاں بنائی جائیں لیکن بلوچستان میں یونیورسٹیوں کے قیام کے بجائے پاک-چین گوادر یونیورسٹی بھی لاہور میں بنایا جارہا ہے اور دوسری طرف جو چند بلوچ طلباء پنجاب کی یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم ہیں، اُن کی فیصل آباد، بہاولپور، ملتان اور لاہور کے یونیورسٹیوں میں پروفائلنگ اور جبری گمشدگیوں کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے۔
حالیہ دنوں قائد اعظم یونیورسٹی کے دو بلوچ طلباء کو اسلام آباد سے جبری گمشدہ کیا گیا، پنجاب یونیورسٹی لاہور کے طالب علم سالم بلوچ تربت سے جبری گمشدہ کئے گئے ہیں اور ایرڈ ایگریکلچر یونیورسٹی راولپنڈی سے سترہ سالہ طالب علم فیروز بلوچ کی جبری گمشدگی کو ایک سال گزر چکے ہیں اور عدالتی احکامات کے باجود اب تک بازیاب نہ ہوسکے ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے احکامات دیئے تھے کہ پنجاب کے یونیورسٹیوں میں بلوچ طلباء کی پروفائلنگ اور جبری گمشدگیاں بند کی جائیں لیکن اس کے باجود طلباء کی جبری گمشدگیاں جاری ہیں۔
بلوچ قوم پرست پاکستان پر الزام عائد کرتے رہے ہیں کہ استحصالی منصوبہ چین پاکستان اقتصادی راہداری کی وجہ سے بلوچ قوم کو نسل کشی اور آبادیاتی تبدیلی کا سامنا ہے اور اس کے فوائد پنجاب کو مل رہے ہیں، بلوچستان میں فوجی آپریشن کئے جارہے ہیں اور پنجاب میں میٹرو اور یونیورسٹیاں بنائے جارہے ہیں۔
پاکستان کی مقتدرہ قوتیں بلوچستان سے ایک محکوم کی طرح سلوک کرنا بند کریں اور بلوچ زمین سے وابستہ منصوبے بھی بلوچستان میں قائم کئے جائیں۔ صرف دعوؤں سے بلوچستان کے لوگوں کو بہلایا نہیں جاسکتا، بلوچ قوم مسلسل اِن منصوبوں پر تشویش کا اظہار کررہے ہیں اور جب تک بلوچ زمین پر منصوبوں کے فوائد بلوچ کو نہیں ملتے اُس وقت تک بلوچستان میں اِن منصوبوں کی تکمیل مشکل ہے۔