نواب نوروز! شہداء بلوچستان اور ایکس کیڈرز (دسواں حصہ) ۔ عمران بلوچ

238

نواب نوروز، شہدا ء بلوچستان اور ایکس کیڈرز
( دسواں حصہ )

تحریر: عمران بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

جب اختر مینگل بلوچستان کے وزیر اعلی تھے تب وزیراعلی سیکٹریٹ کی دو گاڑیاں اس وقت کے بی ایس او کی قیادت کو استعمال کے لیے دی گئی تھی، حالانکہ اصولا بی ایس او کا ایسی گاڑیوں سے کیا واسطہ، خاص کر سرکاری ہوں اور وزیر اعلی ہاوس کے ہوں پھر طلبہ قیادت کو گاڑیوں کی ضرورت کیوں پڑی؟ بہرحال ایک دن وزیراعلی ہاؤس کو بوٹ والوں کی طرف سے اطلاعی کال آیا کہ فلانہ دو گاڈیوں کا اکثر و بیشتر نہ صرف کراچی یاترہ بہت لگتا ہے بلکہ ان میں منشیات لے جایا جاتا ہے اور یہ وہی گاڑیاں تھیں جو بی ایس او کے اس وقت کی قیادت خاص کر چیرمین صاحب کے زیر استعمال تھے ، دلچسپ بات یہ ہے کہ اب وہ سب ایکس کیڈرز کے نام سے اکیٹو ہیں اور بلوچ قوم کی قیادت کرنا چاہتے ہیں خاص کر بلوچ نوجوانوں کی رہنمای کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔

بالکل ایسے ہی ڈاکٹر مالک کے وزارت اعلی کے دور میں تاریخ نے دوبارہ سے خود کو دہرایا پھر بی ایس او کو گاڑی ملی پھر سے وزیر اعلی کو کال کیا گیا کہ آپ کی گاڑی منشیات کے اڈے پر موجود ہے پتا کرنے پر معلوم ہوا دو سابقہ چیئرمین وہاں انقلاب برپا کرنے گئے تھے، ان دو حضرات کی ایک ہی کابینہ رہی ہے، پھر لوگ ایکس کیڈرز نامی گروپ بنا کر منشیات کے خلاف ریلی نکالتے اور واک کرتے ہیں۔یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ واقع طویل داستانیں وسیع پر قصہ مختصر کہ حالیہ پندرہ جولائی دو ہزار تئیس کو ایکس کیڈرز نے خضدار میں شہداء بلوچستان اور نواب نوروز کی برسی منانے کا اعلان کیا، پروگرام کے حوالے سے نواب نوروز کے کسٹم میں ملازم نواسے نے ہر طرح کا تعاون بھی کیا اس دوران بہت سے دلچسپ پریس ریلیز اور سوشل میڈیا انٹرویوز پڑھنے اور سننے کو ملے پھر چاہے وہ خضدار پریس کلب کے نمائندوں سے گفتگو کی ہو یا گدان ٹی وی سے بات چیت کی۔

خضدار پروگرام اور حب چوکی ریلی پر لکھنے سے پہلے میں یہاں ایکس کیڈرز کے بیانات و بیانیہ کا زکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔

نمبر ایک، بی ایس او ایکس کیڈرز کی سیاست بلوچ قومی تحریک میں سیاسی عمل کو قریب سے دیکھنے اور سمجھنے والے دوستوں کو یکجاہ کرکے ان کو بلوچ نیشنلزم کے اوپر، اس کے اہم کرداروں پر اور اس کی پر امن جمہوری طریقہ جدوجہد کی خامیوں کے حوالے سے ایک سازگار ماحول کا بنیاد ڈالنا ہے جس میں نچلی سطح سے لیکر شہری علاقوں کے ان دوستوں کے ساتھ ورک شاپ، بحث و مباحثہ اور مختلف نوعیت کے تقاریب کرکے ماضی میں بی ایس او کے پلیٹ فارم پر سرگرم کرداروں کو آپس میں بٹھا کر پروگریسو سوچ کی آبیاری کرنا ہے اور یہ گروپ رابطے کا ذریعہ بھی ہے۔بقول ایکس کیڈرز کے یہ ہے ان کا مقصد اس گروپ کو بنانے اور ایکٹو کرنے کا۔ سوال یہ ہیکہ یہاں اس بیان میں جو ان کے اغراض و مقاصد ہیں ان میں ” بلوچ قومی تحریک، سیاسی عمل اور اس عمل کو قریب سے دیکھنے اور سمجھنے، ” خاص کر ، عمل” ان سب سے کیا مراد ہے؟ ان ایکس کیڈرز کی نظر میں بلوچ قومی تحریک سے مراد کونسی تحریک ہے؟ اور کونسا عمل جسے یہ سیاسی عمل کہتے ہیں، کیا اس بیچ کوئی غیر سیاسی عمل بھی ہورہا ہے؟

قریب سے دیکھنے اور سمجھنے سے مراد کیا ہے اور کیوں؟ خاص کر اب کیوں؟

کیا اس سے پہلے بلوچستان میں کوئی سیاسی عمل نہیں ہو رہا تھا؟ کیا اب تک انھیں اج کے بلوچستان میں کوئی عملی سیاست یا تحریک چلتا ہوا نظر نہیں آرہا تھا؟ پھر ان کی یکجائی والے بیان سے کیا اخز کیا جائے اور اس یکجائی کی ضرورت کیوں کر انھیں اب پڑی ہے؟
بقول ان کے ” نیشنلزم کے اوپر، اس کے اہم کرداروں پر اور اس کی پر امن جمہوری طریقہ جدوجہد کی خامیوں کے حوالے سے ایک سازگار ماحول کا بنیاد ڈالنا، اب یہ بیان اپنے آپ میں کئی تضادات کا مجموعہ لگتا ہے جیسا کہ غیر سیاسی یا غیر عملی پن اور سطحی قسم کا بیانیہ لگتا ہے۔ یعنی نیشنلزم ،کونسا؟ اور نیشنلزم کے کونسے پہلوں پر بات ہوگی، کس طرح کی بات ہوگی؟ بلوچ نیشنلزم اپنے کس مقام پر ہے اور کونسے مراحل میں ہے؟ پوچھنے کا مطلب ہے آپ یووال نوہا ہریری کی نیشنلزم کی بات کرتے ہیں، اسٹالن کی نشنلزم کو مانتے ہیں، مارکس اور لینن سے ڈاکٹر عنایت بلوچ کی نیشنلزم کو یا پھر ماؤ کی نیشنلزم سے تعلق جوڑتے ہیں؟ یا پھر نواب خیر بخش مری کی نیشنلزم کو مانتے ہیں ، پارلیمنٹ و پارلیمانی پارٹیوں کے نیشنلزم کو اپنے ایمان کا حصہ گردانتے ہیں؟ سوال تو یہ بھی بنتا ہے کہ کیا انیس سو اٹھسسٹ سے ان ایکس کیڈرز کا موقف بلوچ نیشنلزم، قومی تحریک اور جدوجہد کے حوالے سے تزبزب کا شکار ہے اور غیر واضح ہے؟

جاری ہے


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔