نواب اکبر خان بگٹی بلوچ کی شناخت کا استعارہ بن گئے ہیں – این ڈی پی

372

بلوچ سیاست اور قومی تحریک پر نواب اکبر خان بگٹی کی عظیم قربانی کے انمٹ نقوش بدستور قائم ہیںاین ڈی پی

نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے مرکزی ترجمان نے شہید نواب اکبر بگٹی کی 17 ویں برسی کے موقع پر انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئےکہا کہ ریاست نے سفاکیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے تراتانی کے پہاڑوں میں جسمانی طور پر نواب اکبر خان بگٹی کو ہم سے جدا تو کیالیکن وہ بھول گئے کہ نواب اکبر خان بگٹی ایک شخصیت یا صرف قبائلی سردار نہیں بلکہ وہ ایک ایسی قوم کے سیاسی راہ نماتھے,  جس کے سرشت میں مزاحمت پنہاں ہے۔

آج بلوچ قوم کے  پیرو جواں, خواتین اور نئی نسل اس بات کو کبھی بھی نہیں بھلا سکتے کہ 79 سالہ بزرگ رہنماء نے بیماری اوربڑھاپے کے باوجود  اپنی سرزمین کے دفاع اور قومی نجات کی خاطر مزاحمت کے راستے کا انتخاب کیا۔ میدان جنگ میں نہایت دلیریکے ساتھ طاقتور دشمن کے جدید اور بھاری ہتھیاروں کا مقابلہ کرتے ہوئے شہادت کا رتبہ حاصل کیا ۔ بلوچ تاریخ میں یہ واقعہ اپنینوعیت کا پہلا نہیں لیکن بے مثال ضرور ہے ۔

ترجمان نےمزید کہا کہ آج جس طرح ریاست بلوچ وسائل کا کھلے عام اور خفیہ معاہدوں کے تحت سودا لگانے، منصوبے کے تحت بلوچترقی کو روکنے، چادر و چار دیوالی کو پامال کرنے، آئے دن جبری گمشدگیوں میں اضافہ ، ڈیتھ اسکواڈ قائم کر کے امن و امان خرابکرنے، منشیات فروشی کو فروغ دینے، مذہبی شدت پسند کو بڑھانے، قبائلی تنازعات پیدا کرنے،  ٹارگٹ کلنگ اور مقابلوں کے نام پرڈرامائی قتل کرنے اور ان جیسے بے شمار ہتھکنڈوں کے تحت بلوچ نسل کشی میں ملوث ہے اور بلوچ تاریخی ہیروز، روایات، ثقافت،زبان سمیت بلوچ قومی بقا کو خطرے سے دوچارکررہا ہے, جس کا مقابلہ نواب اکبر خان  بگٹی کے نقش قدم پر چل کر ہی کیا جا سکتاہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ شہید نواب بگٹی نے بلوچوں پر واضح کردیا تھا کہ اگر وہ متحد نہیں ہوتے تو انکو اپنے پرکھوں کی سرزمین پرریڈ انڈینز بنا دیا جائیگی، انہوں نے بلوچ قوم کے سامنے سنگل بلوچ پارٹی کی تجویز بھی رکھی لیکن تاسف کے ساتھ کہنا پڑتا ہےکہ دشمن کی بربریت میں اضافہ ہورہا ہے، اب تو بچوں اور خواتین کو بھی جبرا اغواء کرنے کا سلسلہ جاری ہے اور سب سے خطرناکبات یہ ہے کہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت بلوچ اقدار اور بلوچ کوڈ آف کنڈکٹ پر ضربیں لگائی جارہی ہیں, دوسری جانببلوچوں کی زبانوں سمیت کلچر اور قومی تشخص کو شدید خطرات لاحق ہیں, کوئی ایسا دن یا ہفتہ نہیں جاتا کہ بلوچ نوجوانوں کوجبری اغواء یا مسخ شدہ لاشوں کے تحفے بلوچ قوم کو نہیں ملتے, اس بربریت کے باوجود بلوچ اشرافیہ، بیورو کریسی، پارلیمانیسیاسی جماعتیں اسلام آباد کے بغل بچے کے کردار ادا کرنے پر شرمندہ ہونے کے باوجود اس پر اتراتے ہیں، بلوچ سیاسی رہنماؤں، نامنہاد ادیب اور شاعروں، بیورو کریسی، ڈیتھ سکواڈ چلانے والوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ آج وہ سب الف ننگے ہوچکے ہیں، تاریخ انکومعاف نہیں کرے گی اور انھیں یہ بھی پتہ ہونا چاہیے کہ جونہی انکی ضرورت پوری ہوئی تو انکے آقا خود ہی انکو سبق سکھائیں گےجیسے کہ پہلے بہت سے اوروں کو بھی سکھایا گیا۔

دوسری جانب متوازی خطوط پر بلوچ قومی تحریک کا سفر جاری ہے, جو شہید نواب بگٹی اور دیگر امر بلوچ رہنماؤں کی تقلید میں ایکنئی تاریخ رقم کررہے ہیں۔

بیان میں کہا گیا کہ نواب بگٹی کو شہید کرنے کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ نواب کی شہادت سے تحریک ختم ہوجائے گی لیکن اس کےبرعکس ہوا، آج نہ صرف پوری بلوچ قوم مزاحمتی تحریک کی پشت پر کھڑی ہے بلکہ گھریلو خواتین کی بھی اسے حمایت حاصل ہے،نوجوان پڑھا لکھا بلوچ وسائل کی لوٹ کھسوٹ اور بلوچ نسل کشی کو جذباتی ہونے کی بجائے سیاسی شعور کی آنکھ سے دیکھ رہےہیں، اس تمام صورت حال اور بلوچ قوم میں شعوری بیداری کے لئے نواب بگٹی نے اپنا لہو دیکر بلوچ قومی تحریک کو ایک سو سال تککا ایندھن فراہم کیا۔