نوآبادیاتی پالیسی کے تحت بلوچ نوجوانوں کو لاپتہ و قتل کیا جارہا ہے – این ڈی پی

183

نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے ڈپٹی آرگنائزر سلمان بلوچ نے دیگر پارٹی رہنماؤں کے ہمراہ کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہاکہ نام نہاد نو آبادیاتی صورت حال کے اختتام کے باوجود بلوچستان کے لوگوں میں غلامی اور نو آبادیاتی ا ثرات ختم نہیں ہوئے ہیں، آج ما بعد نو آبادیاتی دور میں بھی یہاں کے باسی اُسی استحصال کے چکی میں پِس رہے ہیں، ما بعد نو آبادیاتی عہد میں بھی نو آبادیاتی نظام کی طرح یہاں عوام کو غلام بنانا، مصلحت کے نام پر منافقت، ملکی معیشت کے نام پر قوم کو دیوالیہ کرکے اپنی جیبیں بھرنا، ٹھوس اور خوب صورت نظریات کو اندر سے کھوکھلا کر دینا، تہذیب، ثقافت،معیشت و معاشرت کو کرپشن کی آلودگی سے گدلا کر دینا اور اسی طرح ہمارے یعنی بلوچستان کے وسائل پر نو آباد کار اور مخصوص طبقے کا قبضہ کرنا یہ سب کچھ ما بعد نو آبادیاتی دور کے طُرہ امتیاز ہیں، یعنی ہم نو آبادیات اور مابعد نو آبادیات جیسے صدیوں پرانے بوسیدہ اور غارت شدہ نظام اور پالیسیوں میں جی رہے ہیں۔

   انہوں نے کہاکہ نو آبادتی مطالعے میں ثقافت،تاریخ اور تہذیب پر اثر مند ہونے والے عوامل کو خاص اہمیت حاصل ہوتی ہے،  نو آبادیاتی مطالعہ اس مفروضے سے اپنی ابتداء کرتا ہے کہ نوآبادیاتی عہد بزور طاقت برقرار رکھا جا سکتا ہے، نو آباکار کسی نو آبادیاتی یا نو آبادیاتی سماج میں رہنے والے باسیوں پر سب  سے پہلا حربہ طاقت کا ہے جسے وہ استعمال کرتا ہے، اسی پالیسی کے مطابق نو آبادکار کے خلاف آواز بلند کرنے والے باشندوں کو بزور طاقت قتل کرتا ہے یا طاقت کے مختلف طریقے استعمال کرتا ہے،  ہم سمجھتے ہیں کہ یہاں پر ریاست کی جانب سے نو آبادیاتی پالیسیوں کو دوام بخشنے کیلئے بلوچ نوجوانوں کو آئے روز جبری گمشدہ کرنا یا ان کو ٹارگٹ کلنگ، جعلی مقابلہ یا مسخ لاشوں کی صورت میں انہیں قتل کیا جاتا ہے۔ 

اگر جبری گمشدہ کی بات کریں تو تمام مکتب فکر کے لوگوں سمیت تمام ادارے، پارٹیاں اور تنظیمیں اس بات پر متفق ہیں کہ بلوچستان میں اس وقت سب سے بڑا مسئلہ اور انتہائی گھمبیر حالات انسانی حقوق کے ہیں، جو کہ اس وقت بڑے بے دردی کے ساتھ پامال ہوتے جا رہے ہیں، اور یہ مسئلہ دن بدن بڑھتا جا رہا ہے، حالیہ کچھ وقتوں میں ان میں انتہائی تشویشناک حدتک اضافہ ہوا ہے، کوئی دن ایسانہیں گزرتا کہ جہاں کہیں سے کوئی بھی بلوچ نوجوان کو جبری طور گمشدہ نہ کیا جا رہا ہو، صرف اسی اگست کے مہینے میں 30 سے زائد بلوچ نوجوانوں کو جبری طور پر گمشدگی کا شکار بنایا گیا ہے، ان میں اکثر وہ نوجوان ہیں جن کے عمریں 13 سال سے 22 سال تک ہے۔

   انکا کہنا تھاکہ جیسا کہ شاید آپ لوگوں کو معلوم ہوگا کہ دو ہفتہ پہلے بلوچستان کے شہر ساراوان سے تربت کے رہائشی سمیر بلوچ اور اس کی بیوی ھانی بلوچ کو اس کے گھر سے مسلح افراد نے اغواء کیا تھا اور کچھ دنوں کے بعد ان دونوں کی مسخ شدہ لاشیں ملی، جو کہ کسی بھی بلوچ کیلئے ایک گھمبیر صورتحال کی عکاسی کرتاہے، اور کسی کیلئے بھی یہ عمل ناقابل قبو ل ہے، حالانکہ ان دونوں میاں بیوی کی جبری اغواء سے پہلے سمیر بلوچ کے بھائی روف بلوچ کو بھی مذھب کے ٹھیکداروں نے اپنی انا اور جہالت کا بھینٹ چڑا کر اس کی جان کوخطرہ بنا کر بالاخر انہیں بھی نہایت بے دردی کے ساتھ قتل کیا گیا، ہم سمجھتے ہیں کہ بلوچستان سمیت اس پورے خطے میں مذھب کو ہمیشہ ایک ٹول کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے، نام نہاد جہاد سے لے کر نام نہاد اسلامی شریعہ نافذ کرنے تک یہاں پر مذھب ایک خود مختار دینی فرقہ بننے کی بجائے ہمیشہ ریاستی اداروں کے زیر استعمال رہا ہے اور ہو رہا ہے۔ 

چاہے وہ سمیر بلوچ اور ھانی کی لاشیں ہوں یا روف بلوچ کی بہیمانہ قتل ان تمام کے تانے بانے ان ریاستی اور مذھبی ٹھیکداروں سے ملتے ہیں۔لیکن یہ مذھبی ٹھیکدار اتنے طاقت ور ہیں کہ روف بلوچ کے قتل پر ان نام نہاد جرگہ بلانے والوں کو ضلعی انتظامیہ تفتیش کیلئے بلا نہیں سکتا۔

    انہوں نے مزید کہاکہ حالیہ وفاق اور بلوچستان میں نگران سیٹ اپ لانے میں ایک بات واضح ہو جاتی ہے کہ موجودہ نگران سیٹ اپ کہیں سے بھی غیر جانبدار نہیں ہے، بلکہ اکثریت ان میں وہ لوگ ہیں  جو کھل کر بلوچ مسئلہ خصوصا لاپتہ افراد کے مسئلے پر ہمیشہ جانبداری کا مظاہرہ کرکے ریاستی اسٹیبلشمنٹ سے اپنی نزدیکی اور وفاداری عیاں کرتے آ رہے تھے، یا یہ کہہ دیں کہ سیاسی زبان کی بجائے ہمیشہ ملٹری زبان استعمال کر رہے تھے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جن لوگوں کو نگران سیٹ اپ میں مختلف عہدوں سے نوازا جا رہا ہے یہ وہ پیرا شوٹرز ہیں جو ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کے کندھوں پر بیٹھ اقتدار کے ایوانوں تک پہنچ چکے ہیں آج ان کو ان کی جانبداری، عوام دشمنی اور بلوچ مسئلے پر کھل کر ان کی مخالفت کرنے کی صلح انہیں دیا جا رہا ہے۔ وہ لوگ جو یہ موقف رکھتے تھے کہ یہاں کوئی مسنگ پرسننز کا اتنا بڑا ایشو نہیں ہے، اس مسئلے کو سرے سے کوئی مسئلہ ہی نہیں سمجھتے تھے ان لوگوں سے کیا امید کیا جا سکتا ہے کہ وہ مسنگ پرسنز کا مسئلہ حل کریں گے بلکہ ان کے آنے کے بعد ان میں مزید اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

آخر میں انہوں نے کہاکہ ہماری پارٹی نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی اس وقت بلوچ نوجوانوں کی جبری گمشدگی سمیت سمیر بلوچ، روف بلوچ اور ھانی بلوچ کے ساتھ رونما ہونے والے جیسے واقعات کو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی سمجھتی ہے اور یہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے منشور کے کھلم کھلا خلاف ورزی ہے، لہذا عالمی اداروں سمیت انسانی حقوق کے تمام اداروں کو اس پر سوچنا چاہیے اور ان کے خلاف تحقیقاتی ادارہ تشکیل دے کر ملوث اداروں اور لوگوں کو عالمی انسانی منشور کے مطابق سزا دی جائے۔