بلوچ وائس فار جسٹس کے ترجمان نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ بلوچ وائس فار جسٹس، پشتون تحفظ موومنٹ، ڈیفنس آف ہیومن رائٹس اور ایم کیو ایم سمیت دیگر مظلوم اقوام اور تنظیموں کے ساتھ ملکر جبری گمشدگیوں کے خلاف 8 اگست سے 14 اگست تک ٹوئٹر سمیت دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر ہفتہ آگاہی مہم چلانے جارہی ہے، مہم کا مقصد جبری گمشدگیوں اور دوران حراست لاپتہ افراد کو قتل کرنے کے بارے میں دنیا کو آگاہی دینا اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں سے جبری گمشدگیوں کا غیر انسانی عمل روکنے کا مطالبہ کرنا ہے۔
ترجمان نے مزید کہا کہ بلوچستان سے جبری گمشدگیوں کے جس وباء نے جنم لیا تھا آج وہ ہر طرف پھیل چکا ہے اور بغیر کسی قومیت، نسل اور زبان کے انسانوں کو جبری گمشدہ کیا جاتا ہے، پھر سالوں تک ان کا کوئی سراغ نہیں ملتا۔ بلوچستان کو تو جبری گمشدگیوں کا سرزمین اور نامعلوم لاشوں کا قبرستان کہا جاتا ہے۔
“ہزاروں لوگ جبری گمشدگی کا شکار بن گئے ہیں اور ان کی مائیں و بہنیں اپنے پیاروں کی تصاویر لے کر پریس کلبوں، عدالتوں اور کمیشنوں کے چکر کاٹتے ہیں، انہیں کوئی سراغ نہیں ملتا کہ ان کے پیارے کس گناہ اور کس جرم میں اٹھائے گئے ہیں، دنیا کی کسی مہذب معاشرے میں اس طرح کا غیر انسانی سلوک نہیں اپنایا جاتا اگر کوئی کسی جرم میں مطلوب ہو یا اس پر کوئی شک و شبہ اور الزام ہو تو متعلقہ فرد کو گرفتار کیا جاتا ہے تو 24 گھنٹوں کے اندر اس شخص کو کورٹ میں پیش کیا جاتا ہے اور اس کے لئے ریمانڈ لی جاتی ہے، لیکن مملکت خدا داد پاکستان میں ایسا نہیں ہوتا یہاں اگر کوئی مطلوب ہو تو قانون کے رکھوالے ڈاکو بن جاتے ہیں اور چوری چھپکے اور اپنی شناخت چھپا کر متعلقہ شخص کو اٹھاتے ہیں پھر وہ سالوں تک اس کا کوئی خیر و خبر نہیں ملتی۔”
بیان میں مزید کہا ہے کہ بلوچستان سے ہزاروں افراد لاپتہ ہیں اور ہزاروں تشدد زدہ لاشیں مل چکی ہے اور یہ سلسلہ آج بھی شدت سے جاری ہے، حالیہ کچھ دنوں میں درجنوں طلباء کو جبری لاپتہ کیا گیا اور یہ سلسلہ اب بلوچستان تک محدود نہیں بلکہ پنجاب اور اسلام آباد سے متعدد طالب علم جبری گمشدگی کا شکار بن گئے ہیں، پہلے بلوچ نوجوان بلوچستان میں محفوظ نہیں تھے اب تو ہر جگہ عدم تحفظ کا شکار بن گئے ہیں۔
ترجمان نے مزید کہا کہ بلوچستان سے شروع ہونے والی جبری گمشدگیوں کا سلسلہ اب ہر جگہ پھیل چکا ہے، سندھ، پنجاب، خیبرپختونخواہ، کشمیر اور گلگت بلستان سے بھی ہزاروں افراد کی غیر قانونی جبری گمشدگیوں کی خبریں رپورٹ ہوئے ہیں۔
بلوچ وائس فار جسٹس اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل اور اقوام متحدہ کے دیگر ذیلی اداروں سے اپیل کرتی ہے کہ جبری گمشدگیوں کا سلسلہ روکنے کےلئے بین الاقوامی انسانی حقوق کے قوانین کے ساتھ پاکستان کی نگرانی کی جائے اور حکومت پر زور دیا جائے کہ وہ ایسے معاملات کی روک تھام اور تحقیقات کے لیے مناسب اقدامات کریں۔
“پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اور دیگر حکومتی حکام اس مسئلے کو حل کرنے میں سنجیدہ نظر نہیں آتے کیونکہ جبری گمشدگیوں میں ریاستی ادارے از خود ملوث ہے۔”
بیان میں کہا گیا کہ گذشتہ حکومت میں جبری گمشدگیوں اور لاپتہ افراد کے بارے میں بنائی گئی قانونی بل بھی لاپتہ ہوگیا اس کے علاوہ حکومتی مسنگ پرسنز کمیشن پر لاپتہ افراد کے خاندانوں عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے، کمیشن سربراہ ( ر) جسٹس جاوید اقبال اور جسٹس فضل الرحمان کا رویہ لواحقین سے انتہائی تضحیک آمیز رہا ہے۔
ترجمان نے مزید کہا ہے کہ اقوام متحدہ کا ورکنگ گروپ (WGEID) پاکستان میں ریاستی سطح پر جبری گمشدگیوں کے معاملات کی تحقیقات اور نگرانی کرنے کے لئے موثر اقدامات اٹھائیں اور WGEID سمیت دیگر مہذب ممالک کی حکومتوں، سول سوسائٹی کی تنظیموں سے بھی اپیل کرتے ہیں کہ وہ جبری گمشدگیوں کے غیر انسانی عمل کو انسانیت کے خلاف سنگین جرم قرار دے کر انسانیت کے خلاف اس گھناونے جرم کی روک تھام اور خاتمے کے لیے ٹھوس اقدامات کو فروغ دیں اور بلوچ قوم سمیت دیگر محکوم اقوام کو انسانی بحران سے بچانے کے لیے موثر کردار ادا کریں۔