مذہب کے نام پر نئی نسل کشی کی بنیاد رکھی جا رہی ہے۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی

156

بلوچ یکجہتی کمیٹی (کراچی) کے ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا کہ پاکستان میں مذہب ہمیشہ اپنے ذاتی مفادات کے لئے استعمال ہونے والی چیزوں میں سے ایک تھا جس کی کئی مثالیں ہمیں اس کے ماضی میں ملتی ہیں۔ اسی ماضی کی روایت کو برقرار رکھا گیا اور حال ہی میں بلوچستان کے علاقے تربت میں مفتی شاہ میر گچکی نے ایک نیا پھندہ استعمال کیا ہے اس نے اپنے ساتھ اپنے چند بدمعاشوں کی ٹولی لے کر آج کل پرائیویٹ اسکول کے طالب علم اور ٹیچرز کو مذہبی گستاخی کے نام پر بلیک میل کرنے کا ایک سلسلہ شروع کیا ہے۔ مزید فیصلے کے نام پر پرنسپل اور ٹیچرز سے پیسوں کا ڈیمانڈ کرتا ہے اور اسی طرح اپنے ساتھ دو اور مولویوں کے نوکری کی ڈیمانڈ بھی کرتا ہے۔

ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں مزید بتایا کہ تازہ ترین خبر یہ ہے کہ زگری کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے بلوچ ٹیچر عبدالرؤف ولد برکت کے اوپر بھی توہین رسالت کا الزام مفتی شاہ میر جیسے مذہبی فسادی شخص نے لگایا ہے۔ عبدالرؤف ولد برکت نے حال ہی میں لاء ایڈمیشن ٹیسٹ دیا تھا اور اپنے آئندہ آنے والے روشن مستقبل کا خواہاں تھا لیکن افسوس کہ مذہبی فسادی اور مذہب کے ٹھیکیداروں نے ایسا ہونے نہیں دیا اور ان کے اوپر توہین رسالت کا جھوٹا الزام لگا دیا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس طرح کے الزامات اور مفتی شاہ میر گچکی جیسے لوگوں کا فعال ہونا انتہائی تشویشناک عمل ہے اور یہ بہت خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جب ریاست اس بات میں ناکام ہوگئی کہ بلوچ کو نمازی اور زگری کے نام پہ لڑائے اور ان کو شیر و شکر ہونے نہ دے تو اس نے اپنا قبلہ بدل دیا اور منہ ایک اور جانب کردیا کہ اب توہین رسالت کا الزام لگاکر ایک نئی نسل کشی اور مذہبی فساد کو استعمال کرکے اپنے ناپاک ارادوں کو سر انجام دے رہے ہیں۔ ہم اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ بلوچستان بھر میں ایسے ریاستی مذہبی ٹھیکیدار بھرے پھڑے ہیں کہ جنہوں نے ہر ممکن کوشش کی ہے مذہب کے بنیاد پر بلوچ کو بلوچ کا دشمن بنایا جائے، لیکن ہم بلوچ قوم کو یہ بات واضع کرانا چاہتے ہیں کہ ہوش کے ناخن لے اور اس بات کو جان لے کہ اس کو طرح طرح سے لڑانے توڑنے کی کوشش ہوئی تھی، ہورہی ہے اور آئندہ بھی ہوگی لیکن اس کو خود ان تمام تر چیزوں کو سمجھنا ہوگا اور ان مذہبی ٹھیکیداروں کو بھی سمجھنا ہوگا کہ مذہب، عقیدہ، ایمان جو کچھ بھی ہے دلوں میں ہے چھری یا چاقو سے وہ ختم نہیں ہوگی۔

ترجمان نے اپنے بیان کے آخر میں کہا کہ ہم حکام بالا سے مطالبہ کرتے ہیں اسلام کے نام پر، مذہب اور دین کے نام پر شر پسند عناصر کو استعمال کرنے سے روکا جائے ہم یہ بخوبی جانتے ہیں کہ یہ بھی ریاستی ہتھکنڈوں میں سے ایک ہتھکنڈہ ہے اور ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ اپنا قبلہ درست کریں اور ہوش کے ناخن لیں اس طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرکے بلوچ قوم کی نسل کشی ہم ہرگز برداشت نہیں کر سکتے اگر یہ جاری رہا تو ہم احتجاجی مظاہروں کا آئینی و جمہوری حق رکھتے ہیں۔